1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

چین اور بھارت کا متنازعہ سرحد پر گشت کے معاہدے پر اتفاق

21 اکتوبر 2024

نئی دہلی کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی برکس اجلاس میں شرکت کے لیے ماسکو جا رہے ہیں، جہاں ان کی چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/4m3Kf
بھارت کے مطابق ڈی فیکٹو بارڈر 3,488 کلومیٹر (2,167 میل) طویل ہے لیکن چین اس سے کافی کم تعداد کا دعویٰ کرتا ہے
بھارت کے مطابق ڈی فیکٹو بارڈر 3,488 کلومیٹر (2,167 میل) طویل ہے لیکن چین اس سے کافی کم تعداد کا دعویٰ کرتا ہےتصویر: Mustafa Quraishi/AP/picture alliance

بھارتی وزارت خارجہ کا کہا ہے کہ بھارت اور چین نے ہمالیہ خطے میں اپنی متنازعہ سرحد پر فوجی گشت سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کر لیا  ہے۔ یہ پیشرفت  دونوں ممالک کے مابین 2020 میں شروع ہونے والے طویل سرحدی تنازعے کے بعد سامنے آئی ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے کہا کہ یہ معاہدہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجیوں کو ہٹانے کی جانب لے جائے گا، جو کہ ان دونوں ایشیائی ممالک کے درمیان ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے پر واقعہ مشترکہ سرحد ہے۔

مصری نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ 2020 میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپ کے بعد شمالی لداخ کے علاقے میں ان کی متنازعہ سرحد پر تعینات دسیوں ہزار اضافی فوجیوں کو واپس بلا لیا جائے گا۔ بیجنگ کی جانب سے اس بارے میں فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ مصری نے کہا، ''یہ معاہدہ بھارت اور چین کے سفارتی اور فوجی مذاکرات کاروں کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی ادوار کی بات چیت کا نتیجہ ہے اور یہ کہ 2020 میں ان علاقوں میں، جو مسائل پیدا ہوئے تھے یہ آخر کار انہیں ایک حل کی طرف لے جائے گا۔‘‘

بھارت اور چین کے مابین تعلقات جولائی 2020 میں اس وقت خراب ہوئے، جب ایک سرحدی جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی اورچار چینی فوجی ہلاک ہو گئے
بھارت اور چین کے مابین تعلقات جولائی 2020 میں اس وقت خراب ہوئے، جب ایک سرحدی جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی اورچار چینی فوجی ہلاک ہو گئےتصویر: Prabhakar Mani Tewari

مودی کا مجوزہ دورہ ماسکو

یہ اعلان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے برکس سربراہی اجلاس کے لیے روس کے دورے کے موقع پر کیا گیا، جس میں چین بھی شامل ہے۔ مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ مودی تقریب کے موقع پر چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔ بھارت اور چین کے مابین تعلقات جولائی 2020 میں اس وقت خراب ہوئے، جب ایک سرحدی جھڑپ میں کم از کم 20 بھارتی اورچار چینی فوجی ہلاک ہوئے۔

یہ صورت حال اس ناہموار پہاڑی علاقے میں ایک طویل عرصے سے جاری تنازعے میں بدل گئی تھی، جہاں ہر طرف سے دسیوں ہزار فوجی اہلکار تعینات ہیں، جنہیں توپ خانے، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی حمایت حاصل ہے۔

لائن آف ایکچوئل کنٹرول چین اور بھارت کے زیر قبضہ علاقوں کو مغرب میں لداخ سے لے کر بھارتی مشرقی ریاست اروناچل پردیش تک الگ کرتی ہے، جس پر چین اپنی پوری ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارت اور چین دونوں نے پینگونگ تسو جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں، گوگرا اور وادی گالوان کے کچھ علاقوں سے فوجیں ہٹا لی ہیں لیکن مختلف تہوں کی صورت میں اضافی فوجیوں کی تعیناتی کو برقرار رکھا گیا ہے۔

بھارتی اور چینی فوج کے اعلیٰ کمانڈروں نے فوجی جھڑپ کے بعد سے کئی ادوار پر مشتمل بات چیت کی ہے تاکہ کشیدگی والے علاقوں سے فوجیوں کو ہٹانے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ بھارت اور چین کے مابین 1962ء میں سرحدی جنگ لڑی گئی تھی۔ ایکچوئل لائن آف کنٹرول دونوں ممالک کے علاقائی دعووں کے بجائے اصل میں ان کے زیر کنٹرول کے علاقوں کو تقسیم کرتی ہے۔ بھارت کے مطابق ڈی فیکٹو بارڈر 3,488 کلومیٹر (2,167 میل) طویل ہے لیکن چین اس سے کافی کم تعداد کا دعویٰ کرتا ہے۔

 ش ر⁄ ع ت (روئٹرز)

بھارت اور چین: ہمسائے، حریف اور تجارتی پارٹنرز