1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور ملائیشیا کے بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات

امتیاز احمد4 اکتوبر 2013

چین اور ملائیشیا نے باہمی تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے ’جامع اسٹریٹیجک پارٹنرشپ‘ قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملک فوجی تعاون کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ دوطرفہ تجارتی حجم میں تین گنا اضافہ کریں گے۔

https://p.dw.com/p/19tdv
تصویر: picture-alliance/dpa

جمعے کے روز چینی صدر شی جِن پنگ اور ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے باہمی تجارت کا حجم تین گنا اضافے کے ساتھ سن 2017 تک 160 ارب ڈالر تک لے جانے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے۔ دونوں رہنماؤں کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب امریکی صدر باراک اوباما نے اپنا مجوزہ دورہ ایشیا ملکی سیاسی اور مالیاتی بحران کی وجہ سے منسوخ کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا کی سُپر پاور امریکا اور ابھرتی ہوئی سُپر پاور چین دونوں ہی براعظم ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا اور تجارتی تعلقات میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔

چین اس وقت بھی ملائیشیا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ اس وقت ان ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارت کا حجم 181 ارب رنگٹ یعنی 57 ارب ڈالر ہے۔ سن 2002ء سے لے کر سن 2012ء تک دونوں ملکوں کے مابین تجارت میں سالانہ بنیادوں پر اوسطاﹰ 15.7 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اندازوں کے مطابق رواں برس کے اختتام تک باہمی تجارتی حجم ستّر بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

Xi Jinping und Susilo Bambang Yudhoyono in Jakarta 02.10.2013
چین کے صدر نے گزشتہ روز انڈونیشیا میں اعلان کیا تھا کہ سن 2020ء تک جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی دس رکنی ایسوسی ایشن (آسیان) کے ممالک کے ساتھ ان کا تجارتی حجم ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گاتصویر: picture-alliance/dpa

ملائیشیا کے انتظامی دارالحکومت پُتراجایا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چینی صدر کا کہنا تھا، ’’ہم نے شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ فوجی مشقیں کرنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ دہشت گردی سے نمٹا اور سلامتی کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سے دونوں ملکوں کے مابین سازگار حالات پیدا ہوں گے اور خوشحالی آئے گی۔ ‘‘ تاہم اس پریس کانفرنس کے بعد دونوں رہنماؤں نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا۔

اثرو رسوخ میں اضافہ

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گزشتہ چند برسوں سے چین اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی بھرپور کوششیں کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا نے سن 2011ء میں اپنی نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے مشرقی ایشیائی خطے پر توجہ مرکوز کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ دیگر ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے چین کے ساتھ سرحدی یا سمندری حدود پر تنازعات پائے جاتے ہیں۔ تاہم فلپائن اور ویتنام کے برعکس اس ملک نے اپنے مسائل کو نچلی سطح تک رکھا ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برسوں سے قدرتی وسائل سے مالا مال بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چین اور تائیوان کے ساتھ ساتھ آسیان کے رکن ملک برونائی،ملائیشیا، فلپائن اور ویتنام بھی بحیرہ جنوبی چین کے کئی حصوں پر ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اس علاقے کے سمندری راستوں کا شمار دنیا کے اہم ترین تجارتی راستوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا جغرافیائی محل وقوع، سمندری حیات اور تیل و گیس کے بڑے ذخائر اسے بہت زیادہ پرکشش بناتے ہیں۔

چینی سرمایہ کاری

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق فلپائن اور ویتنام کے برعکس ملائیشیا، چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے بھی فکر مند نظر نہیں آتا جبکہ حالیہ چند برسوں کے دوران ملائیشا کے شعبہ ء لاجسٹک اور پراپرٹی بزنس میں بھی چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ مہینے چین کے ’گلف انٹرنیشنل پورٹ گروپ لمٹیڈ‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ جزیرہ نما ملائیشیا کی سب سے بڑی مشرقی ’کونتان بندر گاہ‘ کے چالیس فیصد شیئرز خریدنے جا رہا ہے۔ صرف اس ایک ڈیل ہی کی مالیت 94 ملین ڈالر تھی۔

گزشتہ برس چین ایک کمپنی ’گارڈن ہولڈنگز کو لمیٹڈ‘ نے ملائیشیا کے جنوب میں واقع صنعتی زون میں 11 ہیکٹر زمین خریدنے کا اعلان کیا تھا اور اس زمین کی مالیت 328.97 ملین ڈالر تھی۔ چین کے صدر نے گزشتہ روز انڈونیشیا میں اعلان کیا تھا کہ سن 2020ء تک جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی دس رکنی ایسوسی ایشن (آسیان) کے ممالک کے ساتھ ان کا تجارتی حجم ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔