چین دُنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن گیا
31 جولائی 2010چین کی ان کوششوں کی وجہ سے ہی اس کے عوام کی ایک بڑی تعداد غربت کی دلدل سے نکلنے میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔ تاہم اب پہلی پوزیشن کے لئے امریکہ کی جگہ لینے کا انحصار اس بات پر ہے کہ چین کا ایکسچینج ریٹ کس تیزی سے بڑھتا ہے۔ ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کی پیشین گوئی کے مطابق نمبر وَن کی پوزیشن پر پہنچنے میں چین کو 15برس کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
قبل ازیں 2009ء میں بھی چین معاشی دَوڑ میں جاپان کو عبور کرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔ چین میں کرنسی سے متعلق حکومتی ادارے کے سربراہ Yi Gang کہتے ہیں، ’چین دراصل پہلے ہی دُنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے۔‘
دوسری جانب چین نے بھلے ہی جاپان کی جگہ لے لی ہو لیکن فی کس آمدنی کے حساب سے وہ امریکہ اور جاپان سے ابھی تک بہت پیچھے ہے، جو چین میں تین ہزار 800 ڈالر ہے۔
گانگ نے یوآن کے بین الاقوامی کرنسی بننے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا، ’چین ابھی تک ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہر کسی کو اتنا سمجھدار ہونا ہی چاہئے کہ خود کو جان سکے۔‘
رواں برس کی پہلی ششماہی میں چین کی معیشت میں گزشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے میں 11.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بیجنگ حکام کو توقع ہے کہ رواں برس کے لئے مجموعی طور پر اس کی شرح نمو نو فیصد سے زائد رہے گی۔ یہ نکتہ اہم ہے کہ 1978ء میں مارکیٹ اصلاحات متعارف کراتے ہی چین نے سالانہ اوسط شرح نمو کا اندازہ ساڑھے نو فیصد لگایا تھا جبکہ بیجنگ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2020ء تک شرح نمو کی اوسط شرح یہی رہی تو یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہو گا۔
دوسری جانب رواں برس چین کی شرح نمو سات سے آٹھ فیصد کے درمیان بھی رہتی ہے تو یہ ایک اچھی کارکردگی کہلائے گی۔
اقتصادی ترقی کی اس دوڑ میں چین نے برطانیہ اور فرانس کو 2005ء میں پیچھے چھوڑا تھا جبکہ بعدازاں چین جرمنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے تیسری پوزیشن پر پہنچ گیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی