چین سے ایف ٹی اے کی تجدید کی خبریں: تاجر و صنعت کار پریشان
31 جنوری 2019انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کے مطابق معاہدے کو حتمی شکل فروری کے وسط تک دے دی جائیگی اور مارچ کے شروع میں اس پر دستخط ہونے کے امکانات ہیں۔ تاہم ڈی ڈبلیو کے دریافت کرنے پر کامرس سیکریٹری یونس دھاگہ نے بتایا، ''پاکستان اور چین کے درمیان آزاد تجارت پر معاہدے کے حوالے سے بات چیت فروری میں ہوں گی ۔ تاہم یہ حتمی شکل کب اختیار کرے گا، اس کے حوالے سے کوئی پیشن گوئی کرنا اس مرحلے پر ممکن نہیں۔‘‘
ڈی ڈبلیو نے جب ڈائریکٹر جنرل ٹرید پالیسی محمد اشرف سے جب اس حوالے سے دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ متعلقہ شعبے سے معلوم کر کے بتائیں گے۔ انہوں نے بعد میں ڈی ڈبلیو کی طرف سے کی جانے والی ٹیلی فون کالز اور پیغامات کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ پاکستان نے چین سے آزاد تجارت کا معاہدہ نومبر سن 2006 میں کیا تھا، جس پر عمل درآمد جولائی سن 2007 میں شروع ہوا تھا۔ ماہرین کے خیال میں اس معاہدے سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن ملکی مارکیٹ چینی اشیاء سے بھر گئیں ہیں۔ چین کے ساتھ تجارت میں پاکستان کو خسارے کا سامنا ہے، جو تقریبا بارہ بلین ڈالرز کا ہے۔
اس معاہدے کو حتمی شکل دیئے جانے کی خبروں نے صنعتی اور تجارتی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر قیصر احمد شیخ نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومتی بیوروکریٹس چیمبر آف کامرس ، پارلیمنٹ اور اسکی کمیٹیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہاں معاہدے کو حتمی شکل دینے کی باتیں ہورہی ہیں اور حکومت نے ابھی تک صنعت کاروں اور تاجروں کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں بھی ابھی تک نہیں بنی۔ حکومت ایسے معاہدہ کیسے کر سکتی ہے۔ معاہدہ کو پہلے پارلیمنٹ کی کمیٹی اور پھر پارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ اس پر بحث ہونی چاہیے لیکن حکومت سارے عمل کو نظر انداز کرنا چاہتی ہے، جو مناسب نہیں ہے۔‘‘
قیصر احمد شیخ مزید کہتے ہیں ، ’’یہ ملک کا سب سے بڑا چیمبر آف کامرس ہی نہیں ہے، جس کو حکومت نے اعتماد میں نہیں لیا بلکہ دوسرے چیمبرز بھی ایسی ہی شکایتیں کر رہے ہیں۔‘‘ لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر عرفان قیصر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے وزیر نے نہ ہم سے کوئی ملاقات کی اور نہ ہی ہم سے تجاویز طلب کی گئیں۔ کچھ عرصے پہلے جب حکومت اس معاہدے کی تجدید کا پروگرام بنا رہی تھی، تو ہم نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ اس معاہدے کے کیا نکات ہیں۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے تاجروں اور صنعت کاروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا نعرہ لگایا لیکن اس نے روپے کی قدر کم کر کے، تیل وگیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے اور شرح سود بڑھا کر بزنس کو مشکل بنادیا ہے۔ گلگت بلتستان چیمبر آف کامرس کے رکن ابرار علی کے خیال میں چین سے تجارت کر کے ہم نے اپنی صنعتوں کو تباہی سے دوچار کر دیا ہے اور اب جو رہی سہی صنعت ہے وہ بھی تباہ ہو جائے گی۔‘‘
ابرار علی نے واضح طور پر کہا کہ یہ معاہدہ بالکل نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ چین معاہدے کو صرف اپنے حق میں استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سن 1985 میں بارٹر ٹریڈ کا معاہد ہ ہوا اس کے تحت چین کی بے شمار مصنوعات پاکستان آرہی ہیں لیکن بیجنگ مختلف بہانوں سے پاکستان کی مصنوعات کو روک رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کینو، آم، چاول، کپڑا، کراکری، غرض یہ کہ کوئی بھی چیز چین لے کر نہیں جا سکتے لیکن وہاں سے ساری چیزیں آرہی ہیں۔‘‘
ارکانِ پارلیمنٹ بھی اس بات پر نالاں ہیں کہ حکومت نے اس اہم مسئلے پر پارلیمنٹ سے بالکل مشاورت نہیں کی۔ سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو ایوانِ بالا میں اٹھائیں گے۔’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ چین سے معاہدہ کرنے پر ہماری معیشت کو نقصان ہوا، صنعتیں بند ہوئیں۔ تاجر برادی کو پچھلے معاہدے پر بہت تحفظات تھے، جو حل ہونے چاہیے تھے لیکن حکومت یہ کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں اس معاملے کو لائے بغیر یہ معاہدہ کرنے جارہی ہے۔‘‘