چین شادی اسکینڈل سے کیا سبق حاصل کیا گیا؟
21 مئی 2019ملکی تاریخ میں پہلی بار کم و بیش دو درجن کے قریب چینی شہری راولپنڈی، اسلام آباد، فیصل آباد اور لاہور سے گرفتار کیے گئے۔ دوسرا سوال بھی فطری تھا کہ اگر چینی شہریوں نے پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ شادی کی تو آخر شادیاں توڑ کر پاکستانی لڑکیوں کو ملکی عدالتوں اور ایف آئی اے کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایسا کیوں ہوا کہ صرف چند ماہ قبل ہنسی خوشی سے شادی کرنے والی لڑکیاں اپنے چینی خاوندوں کے در پے ہوگئیں ؟ کیا اس سارے معاملے میں محض چینی ہی قصور وار ہیں یا کچھ غلطیاں پاکستانی شہریوں یا خواتین سے بھی سرزد ہوئی ہیں؟
سارے معاملے کو جاننے کے لیے میں نے دو متاثرہ لڑکیوں سے رابطہ قائم کیا۔ یہ دونوں لڑکیاں راولپنڈی کی رہائشی ہیں۔ دونوں کی کہانیاں انتہائی دلچسپ اور حیران کر دینے والی ہیں۔ سب سے پہلے راولپنڈی کی شہری بینیش کی مثال لیجیے۔ ماسٹرز ڈگری کی حامل بینیش کے اپنے ماموں چینی لڑکے کا رشتہ لائے۔
بینیش کے ماموں راجہ شکیل اپنے گھر میں آن لائن شادی سینٹر چلاتے تھے۔ ان کے اس سینٹر کے فیس بک ایڈریس پر ساجد نامی ایک نامعلوم شخص نے ان سے رابطہ کیا اور چینی لڑکے کے لیے رشتے کی درخواست کی۔ چینی لڑکے کا تعارف ایک انجینئر کے طور پر کرایہ گیا اور اس کی معقول تنخواہ بھی بتائی گئی۔ سب سے اہم یہ کہ چینی لڑکے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ پیدائشی مسلمان ہے۔ عام طور پر ایک رشتہ کرانے کی تیس ہزار فیس لی جاتی ہے مگر اس کیس میں ساجد نے شادی سینٹر کو پچاس ہزار فیس کی پیش کش کی۔ ظاہر ہے تمام معاملات بڑے واضع اور درست نظر آرہے تھے۔
پاکستان میں مڈل کلاس لڑکیوں کے مناسب رشتے ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہیں۔ معاشرے میں رنگ و نسل، مذہب اور فرقہ ہی نہیں بلکہ برادری اور خاندان کی معاشی صورتحال کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔ شادی سے قبل لڑکے کی تعلیم، چال چلن ، آمدن اور ذریعہ معاش سمیت تمام امور کی باریک بینی سے تحقیق کی جاتی ہے۔ اگر لڑکا ان تمام شرائط پر پورا اتر جائے تو پھر گھر والے اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی حامی بھرتے ہیں ورنہ بات آگے نہیں بڑھتی ۔ لیکن اگر لڑکا باروزگار ہو، معقول تنخواہ ہو، ہم مذہب بھی ہو اور غیر ملکی بھی تو پاکستانی دیر نہیں لگاتے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے غیرملکیوں سے شادی تواطمینان سے کر دی جاتی ہے۔
راجہ شکیل نے مناسب رشتہ ملنے پر کسی اور لڑکی کی بجائے بہتر مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ہی بھانجی کا انتخاب کیا۔ پہلے ساجد سے ملاقات کی، جو چینی شہری زوچانگ کا مترجم تھا۔ زوچانگ کا اسلامی نام محمد علی بتایا گیا۔
شادی سینٹر کے سربراہ راجہ شکیل نے زوچانگ عرف محمد علی سے ملاقات کی اور سات دسمبر کو زوچانگ کا رشتہ بینیش کے ساتھ طے پا گیا۔ اگلے تین ہفتوں میں زوچانگ اور بینیش رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔ ابتدائی طور پر بینیش کو کسی گھر لے جانے کی بجائے ایک مقامی ہوٹل میں رکھا گیا۔ زوچانگ اسلام آباد میں اپنے دیگر چینی ساتھیوں کے ساتھ رہ رہا تھا اور خواہش مند تھا کہ بینیش اسلام آباد کے ان فلیٹس میں منتقل ہو جائے، جہاں دیگر چینی شہری بھی رہائش پذیر تھے۔ بینیش کو یہ بات پسند نہ تھی۔
کچھ دن ہوٹل میں قیام کے بعد نوبیاہتا جوڑے نے بینیش کے گھر ہی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ جوں جوں دن گزر رہے تھے، توں توں بینیش سمجھ رہی تھی کہ شاید اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ بینیش اور زوچانگ کے درمیان بات چیت مترجم کے ذریعے ہی ہوتی لیکن بینیش کو آہستہ آہستہ پتہ چل گیا کہ چینی شہری کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ پاکستانی معاشرتی اقدار سے آگاہ ہے۔
بینیش سے میری راولپنڈی میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے اپنے اہل خانہ کے سامنے بتایا کہ چینی شہری اسے کم کپڑے پہننے پر اکساتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ دیگر چینی مردوں کے ساتھ اکٹھے رہنے کا بھی کہتا۔ پاکستانی معاشرے میں پلی بڑھی بینیش کو یہ سب قبول نہیں تھا۔ بینیش پر مکمل کہانی کھلی تو اس نے اپنے ماموں راجہ شکیل کے مشورے پر پہلے مقامی عدالت سے رجوع کیا اور پھر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی میں درخواست دے دی، جس پر کارروائی کی گئی اور اس طرح چینی شہریوں کی گرفتاریوں کا عمل شروع کر دیا گیا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی چینی شہریوں کے پاکستان میں عیسائی لڑکیوں سے شادیوں کا معاملہ بھی کھلا۔
پتہ چلا کہ چینی شہری ایسے ہی شادی سینٹرز کے ذریعے پاکستان میں مسیحی برادری کی لڑکیوں سے شادیوں میں بھی ملوث رہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ چینی شہری ان شادیوں کے لیے مبینہ طور پر لاکھوں روپے ادا کرتے۔ اب تک ڈیڑھ سو سے زائد چینی شہری پاکستانی لڑکیوں سے شادی کر چکے ہیں، جن کی اکثریت چین جا چکی ہے۔
پچھلے سال کم و بیش ایک سو بیالیس لڑکیاں چین گئی ہیں وہ وہاں کیسی ہیں؟ اس بارے میں ابھی کوئی تحقیق سامنے آئی ہے نہ شکایت۔ تاہم شادی اسکینڈل سامنے آنے کے بعد اب پاکستانی شادی سینٹرز اور عام شہریوں کی اکثریت اب چینی دولہوں سے محتاط ہو گئی ہے۔ اس اسکینڈل نے ایک بات یہ بھی واضح کی ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت چینی رسوم و رواج اور مذہبی عقائد سے بالکل ناآشنا ہے اور یہی نا آشنائی ہمارے لوگوں کو مسائل کا شکار کر رہی ہے۔
گرفتار کیے گئے چینی شہریوں کی اکثریت میں ایک بات مشترک ہے اور یہ کہ تمام کے تمام آن آرائیول بزنس ویزہ پر ہی پاکستان آئے تھے۔ یعنی مبینہ طور پر ان جعلی شادیوں اور اس کے نتیجے میں انسانی اسمگلنگ یا ٹریفکنگ کے اقدامات دراصل پاکستان اور چین کے درمیان ویزہ پالیسی کے معاملے سے جڑے ہوئے ہیں۔
آن آرائیول ویزہ کے حصول کے لیے کسی بھی چینی شہری کو چیمبر آف کامرس میں رجسٹرڈ کسی بھی کمپنی کا ایک خط درکار ہوتا ہے۔ اب تک ایک درجن کے قریب ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جنہوں نے ایسے مشتبہ چینی شہریوں کو خطوط فراہم کیے، جو پاکستان آ کر لڑکیوں سے شادی کے اُمور میں ملوث ہوئے۔ اب اس معاملے پر دونوں ملکوں کے حکام کو مل بیٹھ کر کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی کہ ملک میں چینی سرمایہ کاری بھی جاری رہے لیکن جرائم پیشہ افراد کا سدباب بھی کیا جا سکے۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام چینی شہری پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ جعلی دستاویزات پر شادی کرتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایسی کئی پاکستانی لڑکیاں بھی موجود ہیں، جو چین میں اپنے چینی دولہوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔
چین کے نائب سفیر لی جیان زاو نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پاکستانی لڑکی کا انٹرویو بھی اپ لوڈ کیا ہے، جس میں لڑکی خود اپنے چینی شوہر کے ہمراہ خوشی کا اظہار کر رہی ہے۔ سچ یہ بھی ہے کہ چینی شہریوں کے شادی اسکینڈل نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات میں بھی رخنہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
اس معاملے پر بعض قوتوں نے میڈیا رپورٹوں کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تلخی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ ایف آئی اے حکام یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان کی طرف سے شادی اسکینڈل میں ملوث چینی شہریوں کے خلاف کارروائی میں چینی سفارتخانے کی مرضی بھی شامل تھی۔ پاکستانی لڑکیوں کو شادی کے لیے چینی دولہوں سے انکار نہیں کرنا چاہیے لیکن شادی سے پہلے چھان پھٹک اور اطمینان ضرور حاصل کر لینا چاہیے۔ جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے اصول کو کسی غیر ملکی سے شادی پر نہیں اپنانا چاہیے۔ چینی دولہوں کے اس سکینڈل سے شادی کی خواہش مند خواتین کو سبق ضرور حاصل کرنا چاہیے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔