چین: من گھڑت خبروں نے حوالات پہنچا دیا
31 اگست 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق عوامی تحفظ کی ملکی وزارت نے ان افراد پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے حال ہی میں چینی بازار حصص میں مندی اور گزشتہ دنوں کیمیکل گودام میں لگنے والی آگ کے بارے میں من گھرٹ خبریں شائع کی ہیں۔ عوامی تحفظ کی ملکی وزارت کے مطابق اس ماہ کے آغاز سے پولیس کی جانب سے جاری کارروائی کے دوران اب تک آن لائن موجود تقریباً 165 اکاؤنٹس کو بھی بند کیا جا چکا ہے۔
وزارت کے بیان میں مزید بتایا گیا کہ ان اکاؤنٹس سے اس طرح کی خبریں پھیلائی گئی تھیں کہ بازار حصص میں مندی کی وجہ سے ایک شخص نے چھلانگ لگا کر اپنی جان لے لی اور تیانجن کی آتش زدگی میں تیرہ سو افراد ہلاک ہوئے وغیرہ وغیرہ۔’’اس طرح کی خبریں پھیلانے والے اکاؤنٹس کے مالکان کو سزائیں دی گئی ہیں۔‘‘
تیانجن کے واقعے میں ایک سو پینتالیس افراد ہلاک ہوئے جبکہ اٹھائیس بدستور لاپتہ ہیں۔ خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق افواہیں پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیے جانے والوں میں ایک صحافی اور حصص کا کاروبار کرنے والے ایک ادارے کے آٹھ تاجر بھی شامل ہیں۔ صحافی ونگ ژیالو کو گزشتہ ہفتے ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ونگ نے گزشتہ پیرکے روز سرکاری ٹیلی وژن پر آ کر تسلیم کیا کہ فنڈز بچانے کی حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے ان کا آرٹیکل ’’ غیر ذمہ دارانہ‘‘ تھا:’’مجھے اتنے نازک وقت میں ایسی رپورٹ شائع نہیں کرنی چاہیے تھی۔ میں نے ایسا سنسنی پھیلانے اور توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا‘‘۔
چین میں گزشتہ دو برسوں کے دوران کئی معروف افراد اسی طرح ٹیلی وژن پر آ کر اپنے جرائم کا اعتراف کر چکے ہیں۔ ان میں صحافی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چین میں ٹی وی پر آ کر بیان دینا ایک نیا رجحان ہے۔ مزید یہ کہ چین میں سزاؤں کی شرح 99.9 فیصد ہے۔ 2013ء میں 1.16 ملین ملزمان میں سے صرف 825 افراد کو بری کیا گیا تھا۔
چین میں عوامی تحفظ کی وزارت نے انٹرنیٹ کے حوالے سے بنائے جانے والی قوانین کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا اعلان کر رکھا ہے۔