چین میں خنجر بردار افراد کا حملہ، 28 ہلاکتیں
2 مارچ 2014حکومتی خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق حملہ آور چاقوؤں اور خنجروں سے لیس تھے اور انہوں نے شہر کے مرکزی ریلوے اسٹیشن پر موجود اور وہاں سے گزرنے والے افراد کو نشانہ بنایا۔ سرکاری بیان کے مطابق ’’یہ ایک منظم، بے رحم اور سوچی سمجھی دہشت گردانہ کارروائی تھی‘‘۔
چینی حکومت نے کنُمِنگ کے حملے کی ذمہ داری علیحدگی پسندوں پر عائد کی ہے۔ شنہوا کے مطابق جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کارروائی کے پیچھے شنجیانگ کے علیحدگی پسندوں کا ہاتھ ہے۔ کُن مِنگ جنوب مغربی چینی صوبے یونن کا مرکزی شہر ہے اور اس کی آبادی قريب تین ملین ہے۔
پبلک سکیورٹی کی وزارت نے بتایا کہ پولیس نے پانچ حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا جبکہ پانچ کی تلاش جاری ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس واقعے میں مزید افراد بھی ملوث ہو سکتے ہیں۔ وزارت کے ایک بیان کے مطابق ’’بے گناہ افراد کا قتل کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور پولیس قانون کے مطابق کارروائی کرتے ہوئے ذمہ داروں تک پہنچے گی‘‘۔ ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی شناخت ابھی تک جاری نہیں کی گئی ہے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ اس تفتیشی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
شہر کے ایک رہائشی ینگ ہائفی نے شنہوا کو بتایا، ’’ميں ٹکٹ خرید رہا تھا کہ ميں نے دیکھا کہ ایک گروپ لوگوں پر حملے کر رہا ہے اور تمام حملہ آور سیاہ لباس پہنے ہوئے ہيں۔ اس دوران حملہ آوروں نے اپنے سامنے آنے والے ہر شخص پر وار کیا‘‘۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب اگلے ہفتے بدھ کے روز چینی سیاستدان بیجنگ میں ایک ایسے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں، جس میں صدر شی جن پنگ کی حکومت اپنی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ پیش کرے گی۔ صدر شی جن پنگ نے فوری طور پر اس واقعے کے ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے تعزیتی پیغامات ارسال کیے ہیں جبکہ زخمیوں کے لیے جلد صحت یابی کی دعا بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ملکی پولیس کے اعلی افسراں کو بھی کُن مِنگ پہنچنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اس شہر میں مختلف نسلی اقلیتیں آباد ہیں۔ یونن صوبے کی سرحدیں نیم خودمختار خطے تبت سے ملتی ہیں۔1951ء سے تبت اور تبتیوں کی اکثریت والے ملحقہ صوبوں کا انتظام بھی بیجنگ حکومت کے پاس ہے۔ انٹرنیٹ پر کئی افراد نےکُن مِنگ کے ریلوے اسٹیشن کے باہر خون میں لت پت افراد کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ ابھی تک اس واقعے کے پس منظر کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا اور نہ ہی کسی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ تاہم ماضی میں بیجنگ حکومت اس طرح کی کارروائیوں کی ذمہ داری بد امنی کے شکار صوبے شنجیانگ کے مسلم گروپوں پر عائد کرتی آئی ہے۔