چین میں ’سائیکلوں کے قبرستان‘
سائیکل پر سفر صحت کے لیے بھی مفید ہے اور ماحول کے لیے بھی۔ لیکن شنگھائی اور بیجنگ جیسے بڑے چینی شہروں میں سائیکل شیئر کرنے کا رجحان اتنا بڑھا کہ ’سائیکلوں کے قبرستان‘ وجود میں آنے لگے۔
’سائیکلوں کے کھیت‘
چین کے کئی شہروں میں پولیس کو روزمرہ کے کاموں کے ساتھ اب ایک اضافی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ کام سڑکوں کے کناروں پر اور پارکوں میں ’بائیک شیئرنگ‘ کے لیے چھوڑ دی گئی سائیکلوں کو جمع کرنا ہے۔
’جدھر دیکھیے، ادھر سائیکلیں ہیں‘
چین میں سائیکل شیئرنگ کی اجازت دیے دو برس ہو چکے ہیں اور اس دوران کئی بڑے چینی شہروں میں نہ صرف سائیکلوں کا استعمال بڑھا، بلکہ ہر جگہ دستیاب سائیکلوں کی بڑی تعداد دکھائی دیتی ہے۔ حکام کے مطابق صرف بیجنگ کے گلی محلوں میں سڑک کنارے رکھی ایسی سائیکلوں کی تعداد کئی ملین بنتی ہے۔
’جہاں جی چاہے پارکنگ کرو‘
بائیک شیئرنگ کا مقصد اور استعمال بہت سادہ ہے۔ ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کریں، فی گھنٹہ کے حساب سے کرائے پر سائیکل آرڈر کریں اور ایپ سے ملنے والا کوڈ سڑک کے کنارے کھڑی کسی سائیکل میں ڈالیں۔ اب بائیک آپ کی ہوئی، اپنی منزل پر پہنچ کر جہاں جی چاہے لاک کر کے سائیکل چھوڑ دیں۔
’شہر میں گم‘
عوام تک سستی سائیکلوں کی رسائی یقینی بنانے کی چینی حکام کی یہ کوشش تو کامیاب رہی۔ اوفو اور موبائیک جیسی بڑی چینی کمپنیوں نے انتہائی کم نرخوں پر کرائے کی سائیکلیں فراہم کر دیں۔ لیکن اب شہروں کی انتظامیہ پر ترک شدہ سائیکلوں کو ٹھکانے لگانے کا اضافی بوجھ بھی آن پڑا ہے۔
’قبرستان تو بن چکے‘
بائیک شیئرنگ کا اتنی جلدی اور بڑے پیمانے پر مقبول ہو جانے کا اندازہ شاید چینی حکام بروقت نہیں لگا پائے۔ اب شنگھائی جیسے شہروں کی انتظامیہ نے متروک سائیکلوں کو سڑکوں کے کنارے پھینکے جانے سے روکنے کے لیے نئے ضوابط تو متعارف کرائے ہیں، لیکن اس دوران ’سائیکلوں کے قبرستان‘ وجود میں آ چکے ہیں۔
’سائیکلوں کا بلبلہ‘
ناقدین کا کہنا ہے کہ کم داموں میں سائیکلوں کی فراہمی کے بلبلے کے باعث غیر معیاری سائیکلیں تیار کی گئیں۔ پیڈلوں اور چین کے بغیر سڑک کنارے کھڑی متروک سائیکلیں یہی بلبلہ پھٹنے کا نتیجہ ہیں۔