چین کا اسکول، بچوں کا کوئی جذبہ خفیہ نہیں رہے گا
11 جون 2019سولہ سالہ مینگ جِن یانگ کو اسکول میں کھانے کے لیے صرف چہرے کی ضرورت ہے۔ وہ چہرے کو اسکین کرنے والی ایک مشین کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور اسے مطلوبہ کھانا مل جاتا ہے۔ یہ خودکار نظام فوری جان جاتا ہے کہ کس طالب علم نے پہلے ہی کونسا کھانا آرڈر کیا ہوا تھا؟ کینٹین کے اکاؤنٹ سے پیسے خودکار طریقے سے کاٹ لیے جاتے ہیں۔ پہلے سبھی طالب علموں کو کارڈ دکھانے پڑتے تھے۔ یہ اب بھی ہے لیکن جلد ہے اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مینگ جِن یانگ کے بقول چہرے سے ادائیگی زیادہ عملی طریقہ ہے۔
ہائی اسکول نمبر گیارہ کی طالبہ مینگ جِن یانگ مزید کہتی ہیں، ''میں اکثر یہ سسٹم استعمال کرتی ہوں۔ یہ پہلے کی نسبت بہت آسان ہے۔ پہلے قطاریں طویل ہوتی تھیں اور کارڈ دکھانا پڑتا تھا۔ اب کچن کے عملے کو کوئی بٹن بھی نہیں دبانا پڑتا۔‘‘
اساتذہ کے مطابق اس طرح بچے صحت مند ہو رہے ہیں۔ ذاتی غذائی رپورٹ سے پتا چل جاتا ہے کہ کونسا بچہ کتنی سبزی یا برگر کھا رہا ہے۔ اس اسکول کی استانی یو ژی ہاؤ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہر آرڈر کے بعد ڈیٹا جمع ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد اس سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ والدین کو بھی معلومات دی جاتی ہیں۔ ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ایک مہینے میں ایک بچے نے کس قدر پروٹین، کاربوہائیڈریٹ یا تلا ہوا کھانا کھایا ہے۔‘‘
نگرانی، کنٹرول اور تجزیہ کرنا۔ ہانگ ژو شہر کے ایک سو سال پرانے ہائی اسکول نمبر گیارہ کو کئی اعزاز حاصل ہیں اور یہ اب بھی ملک میں کئی دیگر اسکولوں کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ ڈائریکٹر ژانگ یہاں مستقبل کا 'ذہین اسکول‘ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ڈائریکٹر ژانگ گوانچاؤ کا کہنا تھا، ''ہم نے سوچا کہ کس طرح ٹیکنالوجی کی مدد سے طلبہ کی زندگیاں آسان اور ان کے سیکھنے کی صلاحیت بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد ہمیں بگ ڈیٹا، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کا خیال آیا۔‘‘
اسکول میں ہر کوئی اپنے پیچھے ڈیٹا چھوڑتا ہے، جو اندرونی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کتابیں مستعار لینے کے لیے بھی چہرے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسکول لائبریری کے برعکس نئی قائم کی گئی خود کار لائبریری ہمیشہ کھلی رہتی ہے۔
اس بارے میں استانی ژو زی یاؤ کا کہنا تھا، ''ہم یہاں بھی ڈیٹا جمع کرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کس نے، کب اور کون سی کتاب لی تھی۔ اس طرح ہم وہ کتب خرید سکتے ہیں، جن میں طلبا دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس اسکول کی طالبہ مینگ جِن یانگ جگہ جگہ نصب کیمروں کی عادی ہو چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ایک طرف تو نگرانی کا احساس پیدا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اس سے ہمیں سیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ مجموعی طور پر اس کے فوائد زیادہ ہیں۔‘‘
چہرہ شناخت کرنے والے کیمرے ہر کونے میں ہیں۔ شام کو مانیٹر پر ایک نظر سے پتا چل جاتا ہے کہ آیا سبھی طلبا وقت پر اپنے کمروں میں پہنچ گئے تھے۔ یہاں ٹیکنالوجی کا مطلب طلبا کی بہترین صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ جتنا زیادہ ڈیٹا ہوگا، رجحانات اور فرق کا اتنا بہتر پتا چل سکے گا۔
کلاس رومز میں ایسے کیمرے نصب ہیں، جو چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ کیا کلاس میں بیٹھے طالب علموں کی توجہ مرکوز ہے، وہ اکتاہٹ کا شکار ہیں یا طلبا خوش ہیں؟ کیمرے سب کچھ نوٹ کرتے ہیں۔ لیکن ان دنوں یہ کیمرے بند ہیں۔ کئی والدین اور میڈیا کے لیے تحقیق کے نام پر اس کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ لیکن اسکول کی انتظامیہ اس مسئلے پر کام کر رہی ہے۔ انتظامیہ ان کیمروں کو دوبارہ اور مزید فعال بنانا چاہتی ہے۔
ڈائریکٹر ہائی اسکول ژانگ گوانچاؤ بتاتے ہیں، ''مصنوعی ذہانت کی مکمل ٹیکنالوجی آنکھوں کی حرکت، دماغی لہروں، چہرے کے تاثرات، توجہ اور رویے کو نوٹ کرتی ہے۔ کیا ہمیں اسکول میں ایسی تمام ٹیکنالوجیز کی ضرورت ہے؟ ہم دیکھیں گے کہ اس حوالے سے ہم مزید کیا کر سکتے ہیں۔ ہم انتخاب کریں گے اور مخصوص ٹیکنالوجی کیپمس میں ضرور لائیں گے۔‘‘
اسکول نمبر گیارہ میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں نگرانی نہ کی جاتی ہو۔ داخلی دروازے پر بھی چہرہ شناخت کرنے کا نظام ہے۔ دیر سے اٹھنے والوں کی بدقسمتی، ہر استاد یہ پیغام فوری دیکھ سکتا ہے کہ کون دیر سے آیا ہے۔