چین کا صحت، تعلیم اور ایمپلائمنٹ ٹریننگ سیکٹر میں اصلاحات کا فیصلہ
6 فروری 2013بیجنگ حکومت نے تعلیم، صحت عامہ اور روزگار کے اِن تین اہم شعبوں میں بڑی سماجی و اقتصادی تبدیلیاں لانے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ اصلاحاتی عمل میں کیسی اور کیونکر تبدیلیاں پیدا کی جائیں گی۔ حکومتی اعلان کے مطابق اصلاحاتی عمل کے سلسلے میں ان شعبوں کے لیے خصوصی مالی امداد فراہم کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ مبصرین کے خیال میں حکومت نے چین میں امیر اورغریب آبادیوں میں بڑھتی تفریق کے تناظر میں یہ فیصلہ کیا ہے۔
بیجنگ حکومت کی اعلیٰ ترین قیادت بار بار اقتصادی اصلاحات کے ذریعے اقلیتی امیر اشرافیہ اورغریب اکثریت آبادی کے درمیان مسلسل بڑھتی خلیج کو کم کرنے کے وعدے کرتی چلی آ رہی ہے۔ تازہ ترین اعلان میں بھی تعلیم، صحت عامہ اور روزگار کے لیے خصوصی تربیت کے سیکٹرز میں اصلاحات کا وعدہ تو کیا لیکن ان ممکنہ تبدیلیوں کی تفصیلات کو واضح طور پر عام نہیں کیا۔ چین کی حکومت نے بڑی ریاستی کمپنیوں کو منافع میں سے ایک معقول حصہ سماجی پروگراموں عطیہ دینے کا مشورہ دیا ہے۔
اس مناسبت سے کمیونسٹ پارٹی کے اندر کئی ماہ سے امیر و غریب کی تفریق کو کم کرنے کے خصوصی پلان کو مرتب تو ضرور کیا جا رہا ہے لیکن بڑی حکومتی کمپنیوں اور ان کے حامیوں کی جانب سے اس پلان کی سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ چینی حکومت ملک میں غیر مساوی آمدن سے آگاہ ہے اور اگر موجودہ انداز میں یہ سلسلہ چلتا رہا تو چین بھی ان ممالک میں شمار ہونے لگے گا جن میں غیر مساوی معاشرے پائے جاتے ہیں۔
چین میں پیدا ہونے والی اقتصادی تبدیلیوں کی وجہ سے بعض صنعت کاروں اور کاروباری اداروں کے مالکان کو دیکھتے ہی دیکھتے اربوں ڈالر کا فائدہ پہنچنا ہے جس سے ان کی تقدیر اور معاشرے میں حیثیت میں غیر معمولی تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے جب کہ دوسری جانب اکثریتی آبادی کی ماہانہ آمدنی میں اضافہ انتہائی سست رفتار سے ہو رہا ہے۔ اس دوران اعلیٰ حکومتی اہلکاروں، کمیونسٹ پارٹی کے نمایاں عہدے داروں اور فوجی افسران کے ٹھاٹھ باٹھ، عالیشان ذاتی مکانات میں رہائش اور لگژری موٹر گاڑیوں میں سفر کی سہولت کے علاوہ اپنے بچوں کو غیر ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اہم یونیورسٹیوں میں داخل کروانے سے سیاسی بےچینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چین میں اقتصادی اصلاحات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مالیاتی تفریق میں کمی لانے کے لیے حکومتی خزانے کا استعمال اتنا اہم نہیں جتنا کہ ملکی اقتصادی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ اس تبدیلی سے ہی حکومت بڑی کمپنیوں کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ بڑی کمپنیوں کا تعلق بینکنگ، تیل و گیس اور ٹیلی کمیونیکشنز کے شعبوں سے ہے۔ حکومت کے تازہ بیان میں بڑی کمپنیوں کے منافع کو تقسیم کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ان کمپنیوں کو منافع کا بڑا حصہ حکومتی خزانہ میں شامل کرنا ہو گا۔ یہ کمپنیاں کئی قسم کی مالی رعایتیں رکھتی ہیں اور خاص طور پر انکم ٹیکس کی مد میں ایک معمولی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔
(ah / ai ( AP