چین کی آبنائے تائیوان میں تین روزہ جنگی مشقوں کا آغاز
8 اپریل 2023چین کی یہ فوجی مشقیں پیر کے روز تک جاری رہیں گی جبکہ آخری روز فیوجیان صوبے کے ساحل پر لائیو فائر ڈرلز کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ چین کا یہ صوبہ عین تائیوان کے سامنے واقع ہے۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی جانب سے اس تین روزہ آپریشن کو ’’یونائیٹڈ شارپ سورڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔
دوسری جانب تائیوان نے چین پر علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ مشقیں تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے دورہ امریکہ کے چند دن بعد شروع کی گئی ہیں۔ تائیوان کی خاتون صدر نے فوری طور پر ان جنگی مشقوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کی ’’مسلسل آمرانہ توسیع پسندی‘‘ کے مقابلے کے لیے ’’امریکہ اور دیگر ہم خیال ممالک‘‘ کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔
چینی فوج کے ترجمان شی ژن کے مطابق ملک کے جنگی ہوائی اور بحری جہازوں کو عملے سمیت ’’آبنائے تائیوان کے سمندری علاقوں اور فضائی حدود ‘‘ میں بھیجا جائے گا۔
چین نے تائیوان کے اطراف میں جنگی جہاز تعینات کر دیے
یہ فوجی مشقیں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکرون اور یورپی یونین کی سربراہ اُرزولا فان ڈیر لائن کی بیجنگ سے روانگی کے بعد شروع کی گئی ہیں۔ یہ دونوں اعلیٰ یورپی رہنما چین کے دورے پر تھے تاکہ چینی صدر شی جن پنگ کو قائل کر سکیں کہ وہ یوکرین جنگ کے خاتمے میں مدد کریں۔
تائیوان چین تنازعہ کیا ہے؟
حالیہ برسوں کے دوران چین اور تائیوان کے مابین اختلافات کی وجہ سے اس خطے میں کشیدگی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ بیجنگ حکومت اس جزیرے یعنی تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے اور اس نے اسے چینی سرزمین میں ’’دوبارہ شامل‘‘ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے اور اگر ضروری ہوا تو ایسا طاقت کے ذریعے کیا جائے گا۔
تائیوان کے ساتھ چین کا کوئی بھی فوجی تصادم امریکہ کو بھی اس لڑائی میں گھسیٹ لائے گا کیونکہ تائی پے حکومت کے ساتھ واشنگٹن کے خصوصی تعلقات ہیں اور امریکہ حکومت تائیوان کو اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے ہیں تاکہ خطے میں امریکی فوجی طاقت کو پیش کیا جا سکے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو یقینی بنانا ہے۔
یہ شروع کیسے ہوا؟
چین اور تائیوان 1949ء سے الگ ہیں۔ ایسا تب ہوا تھا، جب چینی خانہ جنگی ماؤ زے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں کی فتح کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔ اس وقت شکست خوردہ قوم پرست، جن کی قیادت ماؤ کے حریف اور کومِن ٹانگ (کے ایم ٹی) پارٹی کے سربراہ چیانگ کائی شیک کر رہے تھے، تائیوان چلے گئے۔
امریکی اسپیکر کی تائیوانی صرر سے ممکنہ ملاقات، چین کی وارننگ
تائیوان میں اس وقت سے ایک الگ اور آزادانہ حکومت قائم ہے۔ تائیوان کو سرکاری طور پر جمہوریہ چین کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے۔
آبنائے تائیوان اس جزیرے کو چین سے الگ کرتی ہے۔ تائیوان میں جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے اور اس کی آبادی تقریباً 23 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔
سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے بیجنگ حکومت تائیوان کو ایک ''منحرف صوبے‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے چینی سرزمین کے ساتھ ’’متحد‘‘ کرنے کا عہد کرتی ہے۔
بیجنگ کا موقف یہ ہے کہ صرف ’’ایک چین‘‘ ہے اور تائیوان اس کا حصہ ہے۔ چین دنیا بھر کے ممالک پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ بیجنگ کا ساتھ دیں اور تائیوان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کریں۔
تائی پے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کا بھی رکن نہیں ہے حالانکہ اس کے پاس ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کی رکنیت ہے۔ چین دنیا بھر کی کمپنیوں پر بھی دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ تائیوان کو چین کا حصہ قرار دیں۔
ا ا / ر ب (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)