چین کی جانب سے امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ مسترد
25 اگست 2011جمعرات کو چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سنہوا نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ بیجنگ کی فوج کے خطرے کو بیان کرنے میں مبالغہ آرائی کر رہا ہے۔ ادارے نے کہا کہ چینی عوام کے لیے یہ کافی عجیب بات ہے کہ چین کے دفاعی اخراجات پر نکتہ چینی امریکہ کر رہا ہے، جو خود دنیا میں دفاع پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ امریکہ میں دفاعی بجٹ کے لیے مختص کی جانے والی رقم 700 ارب ڈالر ہے جبکہ چین نے رواں سال اپنا دفاعی بجٹ بڑھا کر لگ بھگ 91 ارب ڈالر کر دیا ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی پینٹاگون کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چینی بحریہ نے جن ہتھیاروں کی پیداوار میں اضافہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، ان میں طیارہ بردار بحری جہاز کو تباہ کرنے والے جہاز شکن میزائل، ہدف بنانے والے ریڈار کی بہتری، جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں کے بیڑے میں توسیع اور جنگی جہاز شامل ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ سیٹیلائٹ ٹیکنالوجی اور سائبر جنگ کی صلاحیتوں کو بھی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ کچھ عرصہ قبل چین نے ریڈار کی زد میں نہ آنے والا ایک اسٹیلتھ لڑاکا طیارہ بنانے کا بھی اعتراف کیا تھا۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا، ’’چینی قائدین نے واضح ہدایت جاری کی ہیں کہ اس کی بحریہ چین کے دور دراز علاقوں میں مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘
اس کے علاوہ چین نے یوکرائن سے ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی خریدا ہے، جسے حال ہی میں آزمائش کے لیے پانیوں میں اتارا گیا۔ اس پیشرفت پر چین کا کہنا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کے پانچ رکن ملکوں میں سے آخری ملک ہے، جس نے یہ جہاز حاصل کیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ چین تائیوان کے مقابلے میں فوجی برتری میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کی دور تک نشانہ بنانے والی توپیں اب تائیوان سے کہیں آگے تک مار کر سکتی ہیں۔
چین کی جانب سے اپنی بحری طاقت میں اضافہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب اس نے اہم بحری راستوں اور بحیرہ ء جنوبی چین میں معدنیات سے مالا مال جزائر پر زیادہ توجہ دینا شروع کر دی ہے۔
چین ان جزائر کو بلاشرکت غیرے اپنی ملکیت تصور کرتا ہے حالانکہ جنوب مشرقی ایشیا کے متعدد ممالک بھی ان پر حقوق کا دعوٰی رکھتے ہیں۔ رواں برس اس وقت کشیدگیوں میں اضافہ ہوا، جب فلپائن اور ویت نام نے الزام لگایا کہ جزائر کے معاملے میں چین کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔
رپورٹ کو پانچ ماہ کی تاخیر سے جاری کیا گیا کیونکہ جولائی میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف چیئرمین مائیک مولن نے بیجنگ کا دورہ کرنا تھا۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: امجد علی