چین کی سب سے بڑی ہیکنگ ویب سائٹ کی بندش
22 فروری 2010گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کئی ملکوں کی جانب سے متعدد مرتبہ یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کے حکومتی اور غیرحکومتی کمپیوٹرز پر چین میں موجود ہیکرز کی طرف سے حملے کی کوشش کی گئی۔
اخبار چائنا ڈیلی کے علاوہ دیگر کئی اخبارات میں بتایا گیا کہ گرفتار کئے جانے والے تینوں افراد بلیک ہاک سیفٹی نیٹ نامی ویب سایٹ کے مالکان ہیں۔ یہ ویب سائٹ انٹرنیٹ اکاؤنٹ تک غیر قانونی رسائی یعنی ہیک کرنے میں مہارت حاصل کرنے کے طریقے اور رہنمائی فراہم کرتی تھی۔ پولیس کے مطابق اس ویب سائٹ کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس ویب سائٹ نے اپنے مخصوص یعنی VIP ممبران سے فیس کی مد میں سات لاکھ یوان وصول کئے جو ایک لاکھ امریکی ڈالر کے قریب بنتے ہیں۔
چائنا ڈیلی کے مطابق یہ ویب سائٹ سال دو ہزار پانچ میں قائم کی گئی۔ اس ویب سائٹ پر غیر قانونی طور پر انٹرنیٹ اکاؤنٹس ہیک کرنے کے نت نئے طریقے بتانے کے علاوہ اس مقصد کے لئے استعمال ہونے والے ٹروجن سوفٹ ویئرز بھی فراہم کئے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ آن لائن کمیونیکیشن کے ذریعے سے بھی ہیکنگ ٹیکنیکس سکھائی جاتی تھیں۔
سال دو ہزار سات میں چینی شہر میشنگ Macheng میں ہونے والے وائرس کے ایک حملے میں اس ویب سائٹ کے ممبران ملوث پائے گئے تھے۔ جس کے بعد اب تک پچاس کے قریب پولیس افسران اس ویب سائٹ کے خلاف تحقیقات کر چکے ہیں۔
اخبار کے مطابق اس ویب سائٹ کے ممبران میں سے بعض تو صرف تفریحاﹰ دوسروں کا اکاونٹ ہیک کرنے میں ملوث تھے جبکہ کئی دیگر ہیکرز نے بنک اکاونٹس ہیک کرکے غیر قانونی طور پر پیسے بھی حاصل کئے۔ چائنا ڈیلی نے ایک بیس سالہ نوجوان کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس ویب سائٹ پر دراصل یہ سکھایا جاتا تھا کہ دوسروں کے اکاؤنٹس کو کس طرح سے ہیک کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لئے ٹروجن پروگرامز کو کس طرح استعمال کیا جاتاہے۔ اس نوجوان کے مطابق ہیکنگ کی تربیت دینے والے کبھی کبھار ممبران کو ہیک کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام لکھنا بھی سکھاتے تھے۔
چینی حکومت کے مطابق سال 2009ء کے دوران ہیکرز نے غیر قانونی طور پر 238 ملین یوان کمائے، جبکہ مختلف کارروائیوں کے ذریعے چین بھر میں 380 ملین انٹرنیٹ صارفین کو مجموعی طور پر تقریباﹰ 7.6 بلین یوان کا نقصان پہنچایا۔
چین میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہیکرز کے خلاف کی گئی کارروائیوں میں ملک کے شمال مشرقی حصے میں دو ایسے افراد کی گرفتاری بھی شامل ہے جن پر جنوبی کوریا کے ایک بینک اکاونٹ سے ہیکینگ کے ذریعے تین لاکھ 62 ہزار ڈالرز چوری کا الزام تھا ۔
چینی پولیس نے ایک اور کارروائی کے دوران چار ایسے مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لیا تھا جن پر شبہ تھا کہ وہ چین کے چھ صوبوں کی انٹرنیٹ سروس میں آنے والی خرابی کا باعث تھے۔ ایک ایسے ہیکر کو 18 ماہ کی قید کی سزا بھی سنائی گئی جس پر الزام تھا کہ اس نے ایک حکومتی ویب سائٹ ہیک کرکے اس پر موجود ایک خاتون حکومتی عہدیدار کی تصویر کو بدل کر دوسری خاتون کی تصویر آویزاں کر دی تھی۔ اسی طرح ایک سافٹ ویئر انجینیرکو اس الزام میں گرفتار کیا گیا تھا کہ اس نے ایک لاٹری ڈیٹا بیس میں جعلی ٹکٹ شامل کر کے پانچ لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم جیتنےکا دعویٰ کیا تھا۔
چینی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والے انٹرنیٹ انفارمیشن سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر لی ژیاؤڈونگ کا کہنا ہے کہ ہیکرز کی کارروائیاں اب مزید خطرناک ہوتی جارہی ہیں کیونکہ اب انہیں ہیکنگ کے لئے درکار پروگرام نہایت آسانی سے اور مفت آن لائن دستیاب ہیں۔ اخبار نے لی ژیاؤڈونگ کے حوالے سے مزید لکھا ہے کہ ہیکنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لئے چین کو اب زیادہ بہتر ٹیکنالوجی اور اس حوالے سے خصوصی قوانین کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ انٹرنیٹ صارفین کو ہیکرز کی سرگرمیوں سے بچایا جاسکے۔
تاہم چینی حکومت کے ماہرین ٹیکنالوجی کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں بہت سے ہیکنگ حملے دراصل دنیا کے دیگر ملکوں میں موجود ہیکرز نے کئے مگر انہوں نے چین کی کمزور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں موجود کمپیوٹرز کو بطور اسپرنگ بورڈ استعمال کیا۔ ایسی صورت میں کھوج لگانے پر بظاہر چین میں موجود کمپیوٹرز سے ہی ہیکنگ کی ان کوششوں کا سراغ ملتا ہے۔
چین میں ہیکنگ ویب سائٹ کی بندش اور ہیکرز کی گرفتاری کی خبر ایسے وقت میں سامنے آئی جب امریکہ اور چین کے درمیان سفارتی سطح پر تلخی موجود ہے۔ یہ تلخی دنیا کے سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کی جانب سے چین میں اپنے آپریشنز جاری رکھنے پر نظر ثانی کرنے کے اعلان کے بعد دیکھنے میں آئی۔ گوگل کے مطابق یہ فیصلہ چین کے اندر سے گوگل کے انفراسٹرکچر پر منظم حملوں کے باعث کیا گیا ہے۔
رپورٹ : افسر اعوان
ادارت : گوہر نزیر