’چین ہم جنس پسندوں پر تشدد بند کرے‘
15 نومبر 2017ہیومن رائٹس واچ کے مطابق LGBT افراد کو مختلف ہسپتالوں میں ’تبدیلی کی تھراپی‘ کے تحت تنہا رکھا جاتا ہے، بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں اور جبری طور پر ادویات بھی دی جاتی ہیں۔
فرانس میں اب ایمرجنسی کے بجائے زیادہ سخت قوانین
ہم جنس پرست شادی کی اہمیت کے لیے 24 مرتبہ شادی
’نظروں، الفاظ اور حرکتوں سے ہراساں کیا جاتا ہے‘
ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ اس تشدد سے گزرنے والے 17 افراد کے انٹرویوز کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ چین میں سن 2009 سے لیسبین، گے، بائی سیکچوئل اور ٹرانس جینڈر (LGBT) افراد کے خلاف یہ طریقہ استعمال کیا جا رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس تشدد میں شدت بھی آئی ہے۔
15 برس قبل ہم جنس پرستی کو ’ذہنی امراض‘ کی فہرست سے خارج کیا گیا تھا، تاہم مختلف خاندانوں کی جانب سے ہم جنس افراد کو ان کی جنسی رغبت تبدیل کرنے کے لیے ہسپتالوں میں بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔
یانگ ٹینگ نامی چینی ہم جنس پرست مرد اور سماجی کارکن کے مطابق، جنوب مغربی شہر چونگ چینگ میں ایک نجی ہسپتال میں ایک ڈاکٹر نے اسے کہا کہ وہ یاد کرے کہ کب اس نے کسی آدمی کے ساتھ سیکس کیا تھا اور ساتھ ہی ڈاکٹر نے اسے انگلی پر بجلی کا جھٹکا دیا۔ ’’اس تجربے نے میری نفسیاتی پر شدید اثر چھوڑا۔‘‘
ینگ ہیومن رائٹس واچ کی اس رپورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ منگل کے روز خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ اس علاج پر اسے سن 2014ء میں قریب 500 یوان خرچ کرنا پڑے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ’علاجِ تبدیلی‘ سے متاثر بہت سے افراد وہ تھے، جنہیں ان کے اہل خانہ جبری طور پر ہسپتالوں میں لائے۔ فرار سے روکنے کے لیے مختلف ہسپتالوں میں ان افراد کو بند کیا جاتا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق ان افراد کو ڈاکڑوں کی جانب سے زبانی طور پر ’بیمار‘، گندے‘ اور ان جیسے دیگر الفاظ کے استعمال سے بھی ہراساں کیا جاتا رہا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض ہم جنس پسند افراد کو ہسپتالوں میں قے کرانے کی دوا دے کر ہم جنس سیکس کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں، تاکہ انہیں یہ دیکھتے ہوئے الٹی آئے اور وہ طبیعت کی ناسازی کو ہم جنس پرستی سے جوڑیں۔