چینی حکومت اور انٹرنیٹ
1 جولائی 2009نئے قانون کے تحت ملک میں موجود ہر کمپیوٹر پر ایک فلٹرنگ سوفٹویر کا نصب ہونا لازم تھا اور اس قانون کا نفاذ یکم جولائی سے ہونا تھا۔ واشنگٹن نے اس حوالے سے واضح کردیا تھا کہ امریکی کمپیوٹر ساز کمپنیاں سنسرشپ سے متعلق چینی حکومت کے اس قانون پر اتنی کم مدت میں عمل درامد نہیں کرسکیں گی۔ گرین ڈیم نامی اس سوفٹویر کو چین میں انٹرنیٹ کے صارفین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے اور اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ چین میں پہلے ہی قابل اعتراض ویب سائٹس بند ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ اس سوفٹویئر کو "گریٹ فائر وال" بھی کہا جارہا ہے۔
گرین ڈیم نامی یہ چینی سوفٹویئر انٹرنیٹ پر موجود متن کو فلٹر کرے گا، کچھ مخصوص ویب سائٹس کی رسائی سے روکے گا اور ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرے گا جس میں خاص قسم کی تصاویر اور الفاظ موجود ہوں گے۔
ماہرین کے مطابق یہ سوفٹویر خنزیر کی تصاویر کو بلاک کردیتا ہے اور غلطی سے انہیں برہنا انسانی تصاویر سمجھتا ہے۔
چین میں انٹرنیٹ پر گرین ڈیم کے حوالے سے خاصا شدید احتجاج دیکھا گیا ہے، جبکہ چینی حکومت کا دعوی ہے کہ اس سوفٹویئر کا مقصد بچوں کو فحش اور پر تشدد مناظر سے دور رکھنا ہے۔ اس حوالے سے مشہور چینی بلاگر ینگ ہینگ جن تھوڑے متذبذب ہیں۔ ان کا کہنا ہے: اگر ہم اس وضاحت پر غور کریں، تو پہلے تو یہ کافی قابل ستائش معلوم ہوتی ہے، اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو دنیا میں بہت سے ممالک فلٹرنگ کرتے ہیں۔ مگر اگر ہم معاملے کی گہرائی میں جائیں تو اس کا کوئی تک نہیں بنتا۔ پہلی بات تو یہ کہ چین میں پورنوگرافی کی کوئی سائٹس موجود نہیں ہیں، اور پورنوگرافی کی ویب سائٹس کے لئے فائر وال موجود ہے۔
گرین ڈیم نامی اس سوفٹویئر کے خلاف احتجاج میں معروف آرکیٹیکٹ آئی وی وی بھی شامل ہیں۔ وی وی نے نے بیجنگ کا مشہور برڈ نیسٹ سٹیڈیم ڈیزائن کیا تھا۔ اس حوالے سے وی وی کہتے ہیں: گرین ڈیم ایک طریقہ کار ہے۔ یہ ایک ایسا سوفٹویئر ہے جو ایک حاکمانہ نظام سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ان چیزوں پر پابندی لگاتا ہے جو کہ ہر کسی کا کمپیوٹر عمومی طور پر کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ یہ دعوی کرتا ہے کہ یہ قابل نقصان متن کو روکتا ہے، مگر حقیقت میں یہ شہریوں کے اپنے لئے فیصلے کرنے کے اختیار کو مجروح کرتا ہے۔
چین نے واضح کیا ہے کہ انٹرنیٹ کے صارفین کے لئے گرین ڈیم کا استعمال لازم نہیں ہوگا اور اسے کمپیوٹر سے ڈی انسٹال بھی کیا جا سکتا ہے۔ گو چینی حکومت کی جانب سے اس قانون کے اطلاق میں تو فی الحال تاخیر کردی گئی ہے مگر کب تک یہ کہنا مشکل ہے۔