1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

بھارت چین کشیدگی: دونوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
1 اکتوبر 2021

چین کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی ’فارورڈ پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے اور غیر قانونی طریقے سے چین کے علاقے پر قبضہ کر رہا ہے۔ بھارت نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوطرفہ کشیدگی کی وجہ باہمی سرحد پر فوجوں کی تعیناتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4187H
Indien Kashmir | Indischer Soldat
تصویر: Sajad Hameed/Pacific Press/picture alliance

بھارت نے سرحد پر کشیدگی سے متعلق چینی وزارت خارجہ کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ انڈيا اپنی ’فارورڈ پالسی‘ پر عمل پیرا ہے اور غیر قانونی طور پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) عبور کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ سرحدوں پر کشیدگی کی اہم وجہ بڑی تعداد میں فورسز کی تعیناتی ہے اور اس تعداد میں کمی کے بغیر باہمی تناؤ کم نہیں ہو گا۔

بھارت اور چین کے ان بیانات سے یہ بات عیاں ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تناؤ کم کرنے کی جو کوششیں ہوتی رہی ہیں، ان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور یہ کھچاؤ کافی حد تک تاحال برقرار ہے۔ کئی ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں اس کشیدگی میں کمی کے بجائے اضافے کا امکان زیادہ ہے۔

چین کیا کہتا ہے؟

بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونیئنگ نے ایل اے سی کے آر پار کشیدگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی وجہ بھارت کی خودسر پالیسیاں ہیں اور جب تک نئی دہلی ایسی کارروائیوں سے باز نہیں آتا، تب تک ایل اے سی پر تناؤ برقرار رہے گا۔

ان کا کہنا تھا، ’’بھارتی فریق ایک طویل عرصے سے ’فارورڈ پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے اور غیر قانونی طور پر ایل اے سی کو عبور کر کے چین کی سرزمین پر قبضہ کرتا رہا ہے۔ چین اور  بھارت کے مابین سرحدی صورت حال میں کشیدگی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ چین متنازعہ سرحدی علاقوں پر کنٹرول کے مقابلے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ کا مخالف ہے۔‘‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ چین ہمیشہ قومی اور علاقائی خود مختاری اور سلامتی کے تحفظ میں ثابت قدم رہا ہے اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کے لیے پر عزم ہے۔

Grenzkonflikt China Indien
تصویر: Dar Yasin/AP/picture alliance

بھارت کا رد عمل

بھارتی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے چین کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بے بنیاد الزام ہے۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم بگچی کا کہنا تھا، ’’ہم نے کچھ دن پہلے ہی اپنی پوزیشن واضح کر دی تھی کہ ہم ایسے بیانات کو مسترد کرتے ہیں جن کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہیں۔‘‘

ارندم بگچی نے کشیدگی کی ذمہ داری چین پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’چین کی جانب سے بڑی تعداد میں فوجیوں کو جمع کرنے، ان کے اشتعال انگیز رویے اور ہمارے مابین تمام دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کر کے یکطرفہ طور پر صورت حال کو تبدیل کرنے کی جو کوشش کی گئی ہے، اس کی وجہ سے مشرقی لداخ میں ایل اے سی کے آس پاس  امن و سکون کو شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘

بگچی کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے اب بھی سرحدی علاقوں میں بڑی تعداد میں فوجیوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی کا عمل جاری ہے، ’’چینی کارروائیوں کے جواب میں ہی ہمیں بھی اپنی مسلح افواج کو ان علاقوں میں مناسب تعداد میں تعینات کرنا پڑا تا کہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ بھارت کے سکیورٹی مفادات مکمل طور پر محفوظ رہیں۔‘‘

گزشتہ ہفتے ہی نئی دہلی نے بیجنگ کے اس بیان کو بھی رد کر دیا تھا کہ وادی گلوان کا واقعہ اس لیے پیش آیا کہ بھارت نے وہاں تمام دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور چینی سرزمین پر قبضے کی کوشش کی تھی۔

 اتر اکھنڈ میں چینی فوج

دونوں ممالک کے مابین اس بیان بازی کے دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبر بھی سرخیوں میں ہے کہ حال ہی میں چینی فوج بھارت کی شمالی ریاست اتر اکھنڈ میں کافی اندر تک داخل ہو گئی تھی تاہم نئی دہلی حکومت نے اس پر کچھ کہنے کے بجائے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے شہری اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر حکومت اس بارے میں اتنی چپ کیوں ہے؟

Indien I Militär in Kawoosa
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo

بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق چینی فوج کے تقریباﹰ سو گھڑسوار ارکان ایل اے سی سے تقریباﹰ پانچ کلو میٹر اندر باراہوتی کے علاقے تک میں داخل ہو گئے تھے مگر پھر چند ہی گھنٹوں بعد وہ واپس بھی چلے گئے تھے۔ بھارتی میڈیا نے بعض دفاعی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ اس بات پر حیران ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں چینی فوجی آخر اتنا اندر تک کیوں آ گئے تھے۔

اس علاقے میں بھی بھارت اور چین کے درمیان سرحد کے حوالے سے تنازعہ موجود ہے اور ماضی میں بھی اس طرح کی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ چینی فوج ان علاقوں میں داخل ہو گئی جہاں عموماً بھارتی فوجی دستے گشت کرتے ہیں۔

کشیدگی میں اضافے کا امکان

مبصرین کا کہنا ہے کہ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے حوالے سے بھارت اور چین کے مابین کشیدگی گزشتہ برس جون میں شروع ہوئی تھی جسے کم کرنے کی کوشش کی گئیں اور بعض مقامات سے فوجیں دستے پیچھے بھی ہٹا لیے گئے۔ تاہم موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ خطے میں ایک بار پھر تناؤ میں اضافہ ہو گا۔

اس جملہ پیش رفت پر نظر رکھنے والے بھارتی صحافی سنجے کپور کہتے ہیں کہ چین بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس نے کواڈ نامی چار ملکی گروپ میں شامل ہو کر اچھا نہیں کیا اور اسی لیے مستقبل میں حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ سنجے کپور کے مطابق، ’’ناکہ بندی تو جاری ہے اور سرحد پر دونوں جانب سے فورسز کی تعیناتی میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ پیچھے ہٹنے یا فوجی تعیناتی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔‘‘

ان کے مطابق ’کواڈ‘ کی تشکیل واضح طور پر چین کے خلاف ہے اور چینی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ہے۔ بھارت نے اس میں شامل ہو کر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس خطے میں مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور ’’یہ بات چین کو قطعی پسند نہیں کہ ان معاملات میں کوئی اور ملک بھی شامل ہو۔ وہ معاملات کو دو طرفہ بنیادوں پر حل کرنے کی بات کرتا ہے۔‘‘

سنجے کپور کہتے ہیں، ’’جب تک یہ معاملات حل نہیں ہوتے، کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا اور چونکہ بھارت نے مغربی ممالک کے ساتھ ایک نیا اتحاد کر لیا ہے، تو اس سے پیچیدگیاں مزید بڑھیں گی۔‘‘

طویل سرحدی تنازعہ

بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ ایک سال سے بھی زائد عرصے سے مشرقی لداخ  میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پچھلے برس پندرہ جون کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی مارے گئے تھے۔

بھارت کا لداخ تک سرنگوں کا جال بچھانے کا منصوبہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں