چینی قرضوں میں دبے ممالک کی نظریں بھارت کی جانب
8 دسمبر 2019سری لنکا اور مالدیپ چینی 'قرضوں کے شکنجے‘ میں جکڑے ہوئے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں سری لنکا کے نئے صدر گوتابایا راجا پاکسے نے بھارت اور مغربی ممالک کو خبردار کیا تھا کہ اگر ان ممالک نے سری لنکا میں فوری طور پر سرمایہ کاری نہ کی تو وہ چین سے مزید قرض لینے پر مجبور ہو جائیں گے۔
گوتابایا نے سری لنکا کے صدر کا منصب سبنھالنے کے محض بارہ روز بعد یکم دسمبر کو بھارت کا دورہ کیا تھا۔
گزشتہ روز مالدیپ کے وزیر خارجہ عبداللہ شاہد سری لنکا کے دورے پر کولمبو پہنچے تھے۔ مالدیپ نے سری لنکا کی طرح دنیا کو 'خبردار‘ تو نہیں کیا، لیکن کولمبو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد کا کہنا تھا کہ ان کا ملک چینی قرضوں کی 'ری شیڈیولنگ‘ کے لیے 'سفارتی حل‘ تلاش کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
چینی دوستی سے چین کے مقروض ہونے تک کا سفر
کچھ ہی برسوں پہلے تک مالدیپ کے دارلحکومت اور بین الاقوامی ایئرپورٹ کے مابین رابطے کے لیے بحر ہند پر بنائے گئے دو کلومیٹر طویل 'چین مالدیپ دوستی پُل‘ کی مثالیں دی جا رہی تھیں۔ اس پُل اور دیگر چینی منصوبوں کی مثال دے کر بتایا جا رہا تھا کہ چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کیسے چھوٹے ممالک کو ترقی کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔
ایسے زیادہ تر منصوبے سابق صدر عبداللہ یامین کے دور میں شروع ہوئے تھے۔ لیکن گزشتہ برس نومبر میں یامین کی شکست کے بعد جب ان کا پانچ سالہ دور اقتدار ختم ہوا اور نئی حکومت بنی تب مالدیپ کو معلوم ہوا کی حقیقی تصویر کس قدر تاریک ہے۔
سری لنکا میں گفتگو کرتے ہوئے مالدیپ کے وزیر خارجہ نے یہ بھی بتایا کہ چین سے لیے گئے براہ راست قرضوں اور حکومتی ملکیتی کمپنیوں سے لیے گئے قرضوں کی مجموعی مالیت 1.4 بلین ڈالر بنتی ہے۔
34 لاکھ آبادی پر مشتمل اس مسلم اکثریتی ملک کے لیے یہ رقم بھی بہت زیادہ ہے۔ عبداللہ شاہد کا کہنا تھا، ''گزشتہ حکومت کی طرف سے لیے گئے قرضوں نے ہمیں شدید مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ کے حوالے سے کوئی سفارتی حل نکل آئے گا۔ میں چینی حکام سے رابطے میں ہوں۔‘‘
چین سے قرضے لینے والے عبداللہ یامین کو گزشتہ ماہ ہی کرپشن کے الزام میں پانچ ملین ڈالر جرمانہ اور پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
سری لنکا: چینی قرضے اور بھارتی امداد
مالدیپ کے وزیر خارجہ نے سری لنکا کے صدر گوتابایا راجا پاکسے اور ان کے بھائی اور ملکی وزیر اعظم ماہیندا راجا پاکسے سے ملاقاتیں کیں۔ ماہیندا سن 2005 سے رواں برس نومبر تک سری لنکا کے صدر بھی رہے۔ ان کے دور حکومت میں چین سے بے تحاشا منصوبوں کے لیے چین سے قرضے لیے گئے۔
ہامبانتوتا کی بندرگاہ کی تعمیر بھی ایسا ہی ایک منصوبہ تھی۔ بندرگاہ سے آمدنی نہ ہو پائی اور 1.4 بلین کا قرضہ اتارنا ناممکن دکھائی دیا تو سری لنکا کی گزشتہ حکومت نے اسے دسمبر سن 2017ء میں 99 برس کی لیز پر چین کے حوالے کر دیا۔
یہ بندرگاہ بھی چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کے تحت تعمیر کی گئی تھی۔ سری لنکا نے صدر ماہیندا کے دور میں براہ راست قرضوں اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے چین سے سات بلین ڈالر لے رکھے ہیں۔
گوتاپایا نے صدر بننے کے بعد عوامی سطح پر اعلان کیا ہے کہ وہ اہم اسٹریٹجک اثاثوں کو چین کے حوالے کرنے کے خلاف ہیں۔ انہوں نے تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن یہ ضرور کہا کہ اس ضمن میں چین کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کیے جائیں گے۔
بھارت کو بھی کئی دیگر ممالک کی طرح چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر تحفظات ہیں۔ شاید اسی لیے نئی دہلی میں سری لنکا کے نئے صدر کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور مالی امداد فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی گئی۔
لیکن کیا بھارت ان دونوں ممالک کو چینی قرضوں کے چنگل سے نکال پائے گا؟ صدر گوتاپایا بھی جانتے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں۔
اسی لیے بھارتی دورے کے دوران صدر گوتاپایا راجاپاکسے کا کہنا تھا، ''میں بھارت، جاپان، سنگاپور، آسٹریلیا اور دیگر ممالک سے کہوں گا کہ وہ ہمارے ہاں سرمایہ کاری کریں۔ اگر اس وقت سرمایہ کاری نہ کی گئی تو صرف سری لنکا ہی میں نہیں، پورے ایشیا میں مسئلہ پیدا ہو گا۔ کوئی متبادل حل نہ دیا گیا تو چین بیلٹ و روڈ منصوبے کو ہر جگہ پھیلا دے گا۔‘‘
ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔
شمشیر حیدر (اے ایف پی کے ساتھ)