چینی کمپنیوں کی طرف سے کم معیار کے کوئلے کا استعمال
22 ستمبر 2023پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی حدت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں اور اب اس طرح کی خبروں پر ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جن کے مطابق کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی چینی کمپنیاں اپنے وعدے کے مطابق اعلٰی معیار کا کوئلہ بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں کر رہی ہیں۔
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بات کو یقینی بنایا بنانا چاہیے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں اعلٰی کوالٹی کا کوئلہ استعمال کریں کیونکہ کوئلے کا استعمال ویسے ہی خطرناک ہے لیکن اگر کوئلے کا معیار بہت اچھا نہ ہو تو یہ بہت زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے ایک انگریزی روزنامے کی ایک رپورٹ کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی ایک عوامی سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ چینی کمپنیاں وعدے کے مطابق چھ ہزار کلوروفک ویلیو کے کوئلے کو درآمد نہیں کر رہی بلکہ وہ اس کی بجائے 4500 یا پانچ ہزار پانچ سو (سی وی) کے کوئلے کو درآمد کر رہی ہیں جبکہ وہ صارفین سے جو قیمت وصول کر رہی ہیں وہ اعلٰی معیار کے کوئلے کی ہے۔
ڈی ڈبلیو نے جب اس خبر کی تصدیق کے لیے نیپرا کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزاد سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس خبر کو غلط قرار دیا۔ تاہم انہوں نے ڈی ڈبلیو کے سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ نیپرا کے ترجمان ساجد اکرم سے رابطہ کر رہے ہیں اور پھر انہوں نے نیپرا کے رجسٹرار سے رابطے کا کہا۔ رجسٹرار کو ای میل پہ سوالات بھیجے گئے، تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دی۔ چینی سفارت خانے کے حکام نے بھی اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
تا ہم دی نیوز کے رپورٹر اسرار خان نے اپنی خبر کو بالکل درست قرار دیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں اپنی خبر پہ قائم ہوں۔ اطلاع کے مطابق یہ انکشاف جمعرات کو عوامی سماعت کے دوران ہوا۔‘‘
اسرار خان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں 6700 میگا واٹ بجلی درامد شدہ کوئلے سے پیدا کی جا رہی ہے۔ ''اس میں زیادہ تر چینی کمپنیاں ہیں جبکہ کچھ مقامی کمپنیاں بھی کام کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کو کیپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 643 ارب روپے حکومت کو ابھی بھی ادا کرنے ہیں۔‘‘
ماہرین اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ ماہر ماحولیات عرفان چوہری کا کہنا ہے کہ چین اپنے لیے اب ایسی ٹیکنالوجی لے کر آ رہا ہے جو ماحولیات کے اعتبارسے بہتر ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس طرح کے پلانٹس لگ رہے ہیں، جن سے ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عرفان چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کوئلہ ماحولیات کے لیے نقصان دہ ہے لیکن اگر اس کو بحالت مجبوری استعمال بھی کیا جا رہا ہے تو اس میں وہ جدید ٹیکنالوجی استعمال ہونی چاہیے جس میں کاربن کا اخراج کم یا اس کے نقصانات کم سے کم ہوں۔‘‘
عرفان چوہدری کا کہنا ہے کہپاکستان پہلے ہی دوسرے ممالک کی جرائم کی سزا بھگت رہا ہے، ''ہم آج اگر دنیا میں عالمی حدت سے متاثر ہیں تو اس میں پاکستان کا قصور نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کا قصور ہے لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہم آہستہ آہستہ انرجی کے وہ ذرائع جو ماحولیات کو مزید خراب کرتے ہیں ان سے جان چھڑائیں۔‘‘
بین الاقوامی مارکیٹ میں جہاں انرجی کے دوسرے ذرائع کی قیمتیں بڑھی ہیں وہاں کوئلے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سےپاکستان نے حالیہ برسوں میں افغانستان سے بھی کوئلہ برامد کیا ہے لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ افغانستان کے کوئلے کی کوالٹی آسٹریلیا یا دنیا کے کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں بہت اچھی نہیں ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماحولیاتی ماہر نصیر میمن کا کہنا ہے کہ ہمیں افغانستان سے یہ کوئلہ منگوانا نہیں چاہیے تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' افغانستان سے درآمد شدہ جو کوئلہ ہے اس کی کوالٹی اچھی نہیں ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے پر پہلے ہی سوالات آٹھ رہے ہیں۔ ساہیوال پروجیکٹ پر بہت سارے اعتراضات ہیں اور اب نیپرا کی عوامی سماعت کے حوالے سے آنے والی خبروں کے بعد کوئلے کے مزید پروجیکٹس پر بھی سوالات اٹھیں گے۔‘‘
تاہم نصیر میمن کا کہنا تھا کہ حکومت اس حوالے سے کوئی ایکشن نہیں لے گی۔ '' ظاہر ہے ایکشن لینے کا مطلب یہ ہے کہ چین کو ناراض کیا جائے اور حکومت چین کو ناراض نہیں کرے گی۔‘‘
ادارہ برائے تحفظ ماحولیات پنجاب کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر کوئی کلوروفک ویلیو 4500 یا پانچ ہزار پانچ سو ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے حدت زیادہ درکار ہوگی، جس سے کاربن کا اخراج زیادہ ہوگا۔ اگر آپ چھ ہزار کلوروفک ویلیو کا کوئلہ استعمال کرتے ہیں تو اس میں بجلی کم پیدا کرنا ہوگی جس کی وجہ سے ماحولیات پر نسبتاً کم اثر ہوگا۔‘‘
تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ ساہیوال میں قائم چینی پلانٹ میں جو کاربن کا اخراج ہے وہ مقررہ حدود کے مطابق ہے۔
دنیا بھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترک کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ چین میں بھی اس طرح کے منصوبوں کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں سی پیک کے تحت ایسے کئی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے اور اب کام کر رہے ہیں۔