ڈاکار ریلی کار ریس کل سے شروع
4 جنوری 2013ڈاکار ریلی کا چونتیسواں ایڈیشن کل ہفتے کے روز شروع ہو جائے گا۔ اس ریس میں مختلف ڈرائیوروں کوآٹھ ہزار 400 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہو گا۔ ریس پیرو کے دارالحکومت لیما سے شروع ہو کر ارجنٹائن کے مختلف مقامات سے گزرتی انیس جنوری کو چلی کے دارالحکومت سنتیاگو پر ختم ہو گی۔ ریس کی پہلی چھ اسٹیجز پیرو میں مکمل ہو جائیں گی۔
ساتویں اسٹیج شروع تو ہو گی پیرو سے لیکن مکمل ارجنٹائن کے مقام سالٹا پر ہو گی۔ اس کے بعد اگلی چار منزلوں کی میزبانی ارجنٹائن کے پاس رہے گی۔ بارہویں اسٹیج کا آغار ارجنٹائن کے قصبے فیئم بالا (Fiambalá) سے ہو گا اور اس کے بعد ریس کے اختتامی ملک چلی کے شمالی شہر کوپیاپو (Copiapó) کا نمبر آئے گا۔ کوپیاپو سے اختتام تک ریس کی بقیہ دو منازل چلی میں رہیں گی اور آخرکار انیس جنوری کو چودہویں منزل دارالحکومت سنتیاگو میں مکمل ہو گی۔
ریس کے دوران تیرہ جنوری کو آرام کا دن ہے۔ اس ریس میں کاروں اور موٹر سائیکلوں کے ہمراہ ٹرک بھی شامل ہیں۔ دوران ریس، خاص طور پر چلی میں ریس کے ڈرائیوروں کو مختلف منازل کے دوران مختلف ساحلی پٹیوں کے قریب سے گزرنا ہو گا۔ جنوبی امریکا میں شروع کی جانے والی ڈاکار ریس میں پہلی مرتبہ صحرائی علاقے کو رواں برس شامل کیا گیا ہے۔ ارجنٹائن میں آندیز پہاڑی سلسلے کی اونچی نیچی گھاٹیاں بھی ریس کے شرکاء کا انتہائی سخت امتحان ہوتی ہیں۔
ماضی میں ڈاکار ریلی کو پیرس ڈاکار ریلی کہا جاتا تھا۔ اس کی ابتدا سن 1978 سے ہوئی تھی۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس سے شروع ہو کر دریا و بیاباں، صحرا و جنگل اور مختلف شہروں سے گزرتی یہ ریلی افریقی ملک سینیگال کے دارالحکومت ڈاکار کی گلابی جھیل پر ختم ہوتی تھی۔ موریطانیہ میں اسلام پسندوں کی دھمکیوں کی وجہ سے سن 2008 میں اس ریلی کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
ڈاکار ریلی کے نام سے کار ریس کا دوبارہ سلسلہ سن 2009 میں شروع کیا گیا اور اس کا مقام جنوبی امریکی ملکوں پیرو، ارجنٹائن اور چلی منتقل کر دیا گیا۔ اس طرح یہ اہم کار ریس پہلی مرتبہ یورپ و افریقہ سے کسی اور براعظم میں منتقل کر دی گئی لیکن نام وہی ڈاکار ریلی ہی رہا۔ اس پرخطر کار ریس میں پروفیشنل اور شوقیہ ڈرائیور حضرات یکساں طور پر شامل ہو سکتے ہیں۔
اس کار کے براعظم افریقہ میں داخل ہونے پر بھی ناقدین شور مچاتے تھے اور آج بھی اسے اسی شور کا سامنا ہے۔ابھی بھی ماحولیاتی آلودگی کے تحت اس کار ریس کو تنقید کا سامنا ہے۔ ماہرین کے خیال میں دو ہفتوں کے دوران مختلف کاریں اتنی سبز مکانی کاربن گیسوں کا اخراج کرتی ہیں جو ایک فارمولا ون کار ریس کے برابر ہے۔
ان کا خیال تھا کہ اس ریس میں شامل مختلف چھوٹی بڑی گاڑیاں افریقی شہروں اور دیہات کے ماحول کو گرد اور دھوئیں سے لبریز کرتے ہوئے آلودگی کا نیا باب ہر سال رقم کرتی تھیں۔ آج بھی یہی الزام ماحول دوست اس ریس پر رکھتے ہیں کہ ڈاکار ریلی کی وجہ سے چلی، ارجنٹائن اور پیرو کے صاف ماحول کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ افریقہ کے جن جن قصبوں اور چھوٹے بڑے شہروں سے اس ریس کا گزر ہوتا تھا تو ان کے باسیوں کا بھی کہنا تھا کہ اس ریس کا بہت کم مالی فائدہ انہیں ملتا تھا اور اس ریس میں شریک گاڑیوں کی ٹکروں سے مرنے والے پالتو مال مویشوں کا نقصان بھی انہیں ہی سہنا پڑتا تھا۔
ah / at (AFP)