ڈاکٹر شکیل کے ساتھ روابط کا الزام مسترد
10 ستمبر 2012بچوں کی فلاح و بہبود کیلیے کام کرنیوالی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم سیو دی چلڈرن نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت پاکستان میں کام کرنے والے سیو دی چلڈرن کے غیر ملکی عملے کی ملک بدری کا حکم عارضی طور پر واپس لے لیا گیا ہے۔
پاکستانی وزارت داخلہ نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کی جاسوسی کرنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ساتھ روابط کے الزام میں سیو دی چلڈرن کے غیر ملکی عملے کو دو ہفتوں میں پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
حکومت کی جانب سے اس اقدام کے بعد امریکہ سمیت بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں نے پاکستانی حکومت سے فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی تھی۔ اس کے بعد وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے تصدیق دی کی ہے کہ حکومت نے سیو دی چلڈرن کے عملے کو ملک سے نکل جانے کا حکم عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔ سیو دی چلڈرن کے ترجمان غلام قادری کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ حکومت پاکستان کے اس فیصلے کو خوش آئند سمجھتا ہے انہوں نے کہا کہ'' حکومت پاکستان کے اس فیصلے سے موقع ملا ہے کہ جو بھی غلط فہمیاں ہیں ان کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ پاکستان میں سیو دی چلڈرن میں 2000 افراد کام کر رہے ہیں جن میں سے صرف 6 غیر ملکی ہیں۔70 لاکھ بچوں کو خدمات فراہم کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھیں گے۔ بچوں کے حقوق اور ضروریات سب سے پہلے ہیں اور ہم اپنے اس مشن کے مطابق کام جاری رکھیں گے۔‘‘
ترجمان نے اپنی تنظیم کے ڈاکٹر شکیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے روابط کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا سیو دی چلڈرن سے کبھی کوئی رابطہ نہیں رہا ۔ ان الزامات میں کوئی سچائی نہیں اور نہ ہی ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت سامنے آ سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی نہ تو کبھی سیو دی چلڈرن کا ملازم رہا اور نہ ہی کبھی اس نے کسی دوسری حیثیت سے تنظیم کے ساتھ کام کیا ۔
حکومت پاکستان کی جانب سے پہلے تنظیم کے غیر ملکی عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم دینے اور بعد میں اس حکم کو معطل کرنے سے متعلق ایک سوال پر غلام قادری نے کہا کہ
''سیو دی چلڈرن نے حکومت اور ایبٹ آباد واقعے کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن بنایا ہے اس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں ۔ انہوں نے جب بھی جو معلومات ہم سے مانگی ہیں ہم نے انہیں مہیا کی ہیں اور ہم نے ان کو وہ تمام دستاویزی ثبوت مہیا کیے ہیں یہ ثابت کرتے ہیں کہ شکیل آفریدی نے جو الزامات لگائے ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اسی بناء پر حکومت نے یہ فیصلہ واپس لیا ہے۔‘‘
دوسری جانب بارہا کوشش کے باوجود وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک سے ان کا موقف جاننے کے لیے بات نہیں ہو سکی اور وزارت داخلہ کا دیگر اہلکار اس معاملے پر بات کے لیے تیار نہیں ۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف شخصیت اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ حکومت سیو دی چلڈرن کے غیر ملکی عملے کو ملک سے نکالنے اور اور پھر اپنا یہ حکم واپس لینے کا حکم عوام کے سامنے لائے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 30 ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں جن میں سے زیادہ تر درست طریقے سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دے رہے ہیں ، صرف چند این جی اوز ہیں جو اصل میں کام کر رہی ہیں۔ زیادہ تر این جی اوز ایسی ہیں جو لوگوں نے مفادات کے لیے بنا رکھی ہیں ۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ
''پاکستان میں این جی اوز خفیہ کلچر پر یقین رکھتی ہیں جو درست نہیں ۔ انہیں اپنی سرگرمیوں سے متعلق میڈیا کو آگاہ کرنا چاہیے تا کہ ان کے کام سے متعلق عوام جان سکیں۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم
ادارت: کشور مصطفیٰ