1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر عاصم حسین کیس: وسیم اختر سمیت چار سیاسی رہنما

رفعت سعید، کراچی19 جولائی 2016

سابق وفاقی وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف دہشت گردوں کے علاج کے مقدمے نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ پولیس نے وسیم اختر، ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی اور منحرف لیڈر انیس قائم خانی کو احاطہ عدالت سے گرفتار کر لیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JSCq
Dr. Asim Hussain Pakistan
تصویر: DW/R.Saeed

ان سیاسی رہنماؤں کو جیل منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نے درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ دہشت گردوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنے کے مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اخیر، سلیم شہزاد، رؤف صدیقی منحرف رہنما انیس قائم خانی اور پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل نامزد ملزمان ہیں جبکہ اسی مقدمہ میں پاسبان کے رہمنا عثمان معظم بھی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے باعث جیل میں ہیں۔

مذکورہ افراد نے سندھ ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت حاصل کرنے کے بعد توثیق کے لئے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔

وسیم اختر، رؤف صدیقی اور انیس قائم خانی ضمانت کی توثیق کے لئے دائر درخواست کی سماعت کے موقع پر انسداد دہشت گردی کی عدالت پہنچے تھے جبکہ عبدالقادر پٹیل تاخیر سے عدالت پہنچنے کی بنیاد پر کمرہ عدالت میں داخل نہ ہوسکے اور باہر سے ہی گھر واپس لوٹ گئے تھے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کی جج خالدہ یاسین نے چاروں ملزمان کی درخواستیں مسترد کردیں، جس کے بعد تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین نے تینوں ملزمان کو باہر جانے سے روک دیا ۔

Pakistan Karachi Terror-Anschlag auf Sicherheitsteam für Polio Impfung
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

عدالت نے تینوں ملزمان کو تین اگست تک کے لئے جیل بھیجنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر انہیں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی قادر پٹیل کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔

درخواست مسترد ہونے کے بعد وسیم اختر نے احاطہ عدالت میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ گزشتہ روز ہی اس درخوست کی سماعت کے لئے لندن سے واپس آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جج نے فیصلہ سنانے سے قبل سماعت کے دوران یہ بات کہی ہے کہ مجبوراﹰ ڈاکٹر عاصم کی جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ کو منظور کرنا پڑ رہا ہے اور یہ کہ عدالتوں سے بندوق کی نوک پر فیصلے لئے جارہے ہیں۔

سماعت کے لئے انیس قائم خانی کے ہمراہ مصطفٰی کمال اور ڈاکٹر صغیر احمد بھی عدالت آئے تھے جبکہ خبر عام ہوتے ہی ایم کیو ایم کے کئی رہنما اور کارکن بھی عدالت پہنچ گئے تھے۔

دوسری جانب قادر پٹیل نے ڈوئچے ویلے سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ جب میں عدالت پہنچا تو گیٹ بند تھے اور مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی لہذا میں گھر لوٹ آیا۔ میں سیاسی کارکن ہوں اور تمام مقدمات کا سامنا کروں گا۔ جب مجھے اطلاع موصول ہوئی کہ عدالت نے میرے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں اور پولیس میری گرفتاری کے لئے چھاپے مار رہی ہے تو میں نے خود تھانے جاکر گرفتاری دے دی۔‘‘

گرفتاری کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب رینجرز کا خط موصول ہونے پر لندن سے واپس آسکتا ہوں تو عدالت سے فرار ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی اور رکن قومی اسمبلی کنور نوید جمیل نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آج کی گرفتاریوں کو کراچی میں جاری آپریشن کا تسلسل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن میں ایم کیو ایم کے ایک سو تیس کارکن لاپتہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مقدمہ ابتدا سے ہی متنازعہ ہے۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے تین ماہ بعد رینجرز کی جانب سے یہ مقدمہ درج کروایا گیا تھا جبکہ پولیس تفتیشی رپورٹ میں ڈاکٹر عاصم کو بے گناہ قرار دے چکی ہے، جو سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان پہلے تنازعہ کی وجہ بنی تھی۔

آج بھی سندھ حکومت اور رینجرز کے درمیان اختیارات کے لئے جھگڑا جاری ہے، سندھ حکومت رینجرز کو کراچی میں صرف دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے تدارک تک محدود رکھنا چاہتی ہے جبکہ رینجرز کا موقف ہے کہ کراچی سے بھاگ کر جرائم پیشہ افراد اندرون سندھ میں روپوش ہو جاتے ہیں لہذا اندرون سندھ میں بھی کارروائی ضروری ہے۔