ڈربن کانفرنس: زیادہ دباؤ سے ناکامی کا خطرہ تھا
13 دسمبر 2011یہ بات جنوبی افریقی حکومت کی طرف سے ڈربن میں ہونے والی کانفرنس کے دوران انتہائی مشکل نوعیت کے مذاکرات کے پس منظر میں کہی گئی ہے۔ ڈربن کانفرنس میں ان مذاکرات کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو فوری طور پر کس طرح کا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے۔
پریٹوریا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنوبی افریقہ کی وزیر ماحولیات ایڈنا مولیوا (Edna Molewa) نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کو اس وقت زبردست مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف ملکوں کے قومی سیاسی مفادات بھی ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ان حالات میں ڈربن کانفرنس میں شریک ملکوں پر اس بارے میں دباؤ ڈالنا کہ وہ ان سے بھی زیادہ کوششیں کریں جن پر وہ تب تک تیار تھے، ایسے حالات کی وجہ بن سکتا تھا کہ ڈربن کانفرنس میں کوئی معاہدہ طے ہی نہ پاتا۔ جنوبی افریقہ کی وزیر ماحولیات کے مطابق ڈربن کی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بالآخر نہ صرف ایک معاہدہ طے پا گیا بلکہ کیوٹو پروٹوکول کو بھی غیر مؤثر ہو نے سے بچا لیا گیا۔
ایڈنا مولیوا کے مطابق ڈربن کانفرنس میں مذاکراتی عمل بہت مشکل تھا۔ اس لیے اس کانفرنس کی کارروائی میں مقررہ وقت کے بعد ڈیڑھ دن کی تو سیع بھی کر دی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈربن کانفرنس میں کوئی معاہدہ طے نہ پاتا تو تقریباﹰ دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کے بے نتیجہ رہنے کی صورت میں خود اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق کنوینشن پر بھی بہت برے اثرات پڑتے۔
ڈربن کانفرنس کی چودہ روز تک جاری رہنے والی کارروائی کی صدارت جنوبی افریقہ کی اس وزیر ماحولیات نے کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈربن کانفرنس کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ کیوٹو پروٹوکول کی مدت میں پانچ سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔
جنوبی افریقہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں مختلف ملکوں کی حکومتوں اور بہت سی بین الاقوامی تنظیموں نے اب تک مختلف رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ چند حکومتیں اور تنظیمیں اگر اسے کامیاب قرار دے رہی ہیں تو کئی دوسری تنظیموں کے مطابق اس عالمی کانفرنس کے نتائج اتنے متاثر کن نہیں رہے جتنے ہونے چاہیے تھے۔ اس کے علاوہ آکسفیم اور کئی دیگر بین الاقوامی امدادی اور ماحولیاتی تنظیموں نے ڈربن کا نفرنس کے نتائج کو نا امید کر دینے والے نتائج قرار دیا ہے۔
ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ڈربن کانفرنس میں 194 ملکوں کے مندوبین نے زمین کے درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے کو روکنے کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے برعکس جنوبی افریقی وزیر ماحولیات مولیوا نے اعتراف کیا کہ اس کانفرنس میں کسی نتیجے پر پہنچ جانا کس بھی طرح کا اتفاق رائے نہ ہونے کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔
ایڈنا مولیوا نے یہ بھی کہا کہ خود جنوبی افریقہ بھی ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں حکومت غربت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے اور تحفظ ماحول کے لیے اپنی کو ششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ مختلف ملکوں کو ترقی کے لیے وقت درکار ہے لیکن تحفظ ماحول کی کوششوں میں تاخیر بھی نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اس پس منظر میں ڈربن کانفرنس کے نتائج تسلی بخش ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک