ڈرون حملے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ، امریکی حکام
4 مئی 2010امریکی حکام کے مطابق سی آئی اے کی جانب سے پاکستانی قبائلی علاقوں پرکئے جانے والے ڈرون حملے طالبان کی اعلٰی قیادت کو نشانہ بنانے میں مکمل طور سے کامیاب نہیں ہو سکے۔ امریکی حکام کی جانب سے جاری کئے جانے والے اعداد و شمار اور پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں کافی فرق ہے۔
پاکستانی میڈیا صرف شہری ہلاکتوں کی تعداد چھ سوسے زائد بتاتا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کے حوالے سے جو تازہ اعداد و شمار منظرعام پر لائے گئے ہیں، وہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور شہری حقوق کےگروپوں کے دعووں کے برعکس ہیں۔
اس بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں جو پانچ سوعسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر طالبان کے عام کارکن تھے۔ اس حوالے سے ماہرین یہ سوال کرتے ہیں کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو ان افراد پر حملہ کرنے سے قبل ان کے بارے میں کتنی معلومات حاصل ہوتی ہیں؟ مزید یہ کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں راستے دشوار گزار ہیں اورآزاد ذرائع سے اطلاعات کا حصول بھی تقریباً ناممکن ہے۔ اس وجہ سے شہری ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔
انسداد دہشت گردی کے ایک امریکی ادارے کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ اندازے فوج کو حاصل ہونے والی تصاویر سے لگائے گئے ہیں۔ یہ تصاویر ڈرون طیارے سے حاصل کی جاتی ہیں، جو حملے کے بعد نقصانات کا اندازہ لگانے کے لئے پرواز کرتے ہیں۔ شہری ہلاکتوں اور نقصانات کے بارے میں تھوڑی بہت اطلاعات ان صحافیوں سے حاصل ہو جاتی ہیں، جنہیں پاکستانی افواج قبائلی علاقوں کا دورہ کراتی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرزکے مطابق ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد یقیناً 500 سے زیادہ ہے۔ روئٹرزکی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سابق امریکی صدرجارج ڈبلو بش کے دورمیں شروع کئے جانے والے ان حملوں کی اب تک کی تعداد کم از کم 110 ہے اور ان میں850 لوگ مارے گئے ہیں۔ ان میں طالبان، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپ کے14سرکردہ جبکہ چھوٹی سطح کے دو درجن سے زائد رہنما شامل ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق سی آئی اے کی جانب سے کی جانے والی کارروائی اچانک نہیں کی جاتی بلکہ اس کے لئے اطلاعات جمع کی جاتی ہیں اوران معلومات کو نظر میں رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ حکام نے مزید بتایا کہ زیادہ ترعام افراد یہ تودہشت گردوں کے قریب ہونے یا ان کے ساتھ سفر کرنے کی وجہ سے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی