ڈرون حملے بند ہونے تک دھماکے جاری رہیں گے، طالبان
13 جنوری 2011بنوں پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک شہر ہے، جس کے ایک نواحی علاقے میں بدھ کو ہونے و الے اس دھماکے میں 15 افراد زخمی بھی ہوئے۔ بنوں کے مرکزی ہسپتال میں تعینات ایک ڈاکٹر محمد رحیم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہسپتال میں 18 لاشوں اور پندرہ زخمیوں کو لایا گیا ہے۔‘
پاکستانی طالبان نے اس حملے کی فوری طور پر ذمہ داری قبول کر لی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں کیے جانے والے ڈرون حملوں کا جواب ہے۔
طالبان کے ترجمان اعظم طارق نے ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’ہم اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوتے، ہم ایسے حملے جاری رکھیں گے۔‘
بنوں میں مقامی حکام کے مطابق خود کش حملہ آور بارود سے لدی اپنی کار کے ساتھ ایک مقامی پولیس اسٹیشن میں جا گھسا تھا، جس سے قریبی مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔
ضلعی پولیس کے سربراہ محمد افتخار کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے بیشتر پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستوں کے ارکان ہیں۔ انہوں نے کہا، ’اس حملے کا ہدف پولیس اسٹیشن تھا، جس کے قریب ایک مسجد بھی ہے۔ جب دھماکہ ہوا تو اس وقت پولیس اور پیراملٹری اہلکار مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے۔‘ محمد افتخار نے کہا کہ متاثرین میں کچھ عام شہری بھی ہیں لیکن زیادہ تعداد سکیورٹی اہلکاروں کی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ ان ڈرون حملوں کی باقاعدہ تصدیق نہیں کرتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حملے اسلام آباد حکومت کی ’مرضی‘ سے ہی کیے جاتے ہیں جبکہ واشنگٹن حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ذریعے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی قیادت انتہائی کمزور پڑ چکی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برس پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے تیز کر دیے گئے، جن کی تعداد تقریباﹰ 100 رہی اور ان میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے چھ سو سے زائد تھی۔
بنوں میں خود کش کار بم دھماکہ ایک ایسے وقت ہوا، جب امریکی نائب صدر جو بائیڈن پاکستان کے دورے پر تھے۔ اس موقع پر انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہم اتحادی کو واشنگٹن حکومت کی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ امریکہ اسلام کا دشمن نہیں ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک