ڈرون حملے قانونی طور پرجائز ہیں، امریکی مشیر
27 مارچ 2010انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں ان حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت پرامریکی حکومت پرکڑی تنقید کے ساتھ ساتھ واشنگٹن سے اس ضمن میں تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
اگرچہ امریکی صدر باراک اوباما ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھنے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بلوچستان تک اسے پھیلانے کی بات کرچکے ہیں تاہم باضابطہ طورپر امریکی حکومت اس سلسلے میں زیادہ تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔ حالیہ پیشرفت کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر Harold Koh نے سوسائٹی برائے بین الاقوامی قانون میں خطاب کے دوران ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق قرار دیا۔ ان کے مطابق امریکہ کا القاعدہ، طالبان اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ مسلح تنازعہ ہے جس کی ابتداء 11ستمبر کے حملوں کے بعد ہوئی۔ ان کے مطابق اس ضمن میں اپنے دفاع میں طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکی عہدیدار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب واشنگٹن میں پاکستان اور امریکہ کی فوجی وسیاسی قیادت کے مابین اہم سٹریٹیجک مذاکرات ہوئے ہیں۔
صدر اوباما کے دور میں پاکستان میں ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے۔ محض رواں سال ہی اس نوعیت کے 23 حملوں میں لاتعداد میزائل پاکستان کے قبائلی علاقوں میں داغے جاچکے ہیں۔ ان میں جہاں القاعدہ اور طالبان کے بیشتر جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں وہی عام شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ امریکی تنظیم The American Civil Liberties Union ایک عدالتی درخواست کے ذریعے واشنگٹن حکومت سے اب تک کے ڈرون حملوں سے ہوئی عام شہریوں کی ہلاکت کی مکمل تفصیلات مانگی ہیں۔
امریکی مشیر Harold Koh نے دعویٰ کیا کہ اوباما انتظامیہ کے تحت بغیر پائلٹ کے ان طیاروں سے کئے گئے حملے جنگی قوانین کے بھی مطابق ہیں۔ ڈرون حملوں کے اہداف اور عام شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق امریکی مشیر نے زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ان کا دائرہ اختیار محدود ہے۔
خیال رہے کہ ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات کے باعث پاکستانی رائے عامہ میں امریکہ مخالف جذبات بڑھتے جارہے ہیں۔ The American Civil Liberties Union نے وزارت خارجہ کے مشیر کی جانب سے ڈرون حملوں سے متعلق واشنگٹن کا قانونی مؤقف واضح کرنے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس تنظیم کا مطالبہ ہے کہ امریکی حکومت واضح کرے کہ کن حالات میں اور کس کے خلاف ڈرون حملوں کا حکم دیا جاسکتا ہے اور اب تک کتنے عام شہری ان حملوں کا نشانہ بنے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عدنان اسحاق