ڈرون طیارے: پاکستانی امریکی تعلقات میں نئی کشیدگی
6 جنوری 2011اسلام آباد کو یہ پیشکش امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے گزشتہ برس جنوری میں اپنے دورہء پاکستان کے دوران کی تھی، تاہم اس حوالے سے ہونے والی بات چیت اب تک کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ پاکستان کی طرف سے غیر سرکاری طور پر اس معاملے پر نہ صرف اعتراض کیا جا رہا ہے بلکہ ان طیاروں کی قیمتوں اور حوالگی میں وقتی طوالت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں متعین ایک امریکی فوجی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے بات چیت میں مصروف ہے کہ پاکستانی فوج کو کس طرح کے بغیر پائلٹ ڈرون نظام کی ضرورت ہے۔ اسی بارے میں ایک پاکستانی فوجی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈرون طیارے مہیا کرنے کے حوالے سے بات چیت کا عمل ’انتہائی سست‘ ہے۔
’’مسئلہ یہ نہیں کہ ہمیں طیارے کس قسم کے چاہئیں اور اس وجہ سے ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے بلکہ مذاکرات میں تاخیر کی اصل وجوہات دو ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ طیارے ہمارے حوالے کرنے کے لئے طے کردہ وقت بہت زیادہ ہے اور دوسرا ان طیاروں کی قیمت کی ادائیگی ہمارے لئے آسان نہیں۔‘‘
اس پاکستانی عہدیدار کے مطابق امریکہ کی طرف سے ان طیاروں کی متعین کردہ قیمت عالمی مارکیٹ میں ان طیاروں کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے اور ان کو پاکستان کے حوالے کرنے کے لئے کم از کم تین برس کا وقت دیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے اس حوالے سے تفصیلات جاری نہیں کیں تاہم کہا ہے کہ فریقین اس معاملے پر پوری مستعدی سے بات چیت میں مصروف ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع کے مطابق دہشت گردی کے خلاف پاکستانی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے، جیسے ہی کوئی حتمی فیصلہ طے پا گیا، یہ طیارے جلد از جلد پاکستان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان ڈرون طیاروں کے معاملے میں اتفاق رائے کی کمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب واشنگٹن اسلام آباد سے طالبان کے خلاف ’مزید اور مؤثر کارروائی‘ کا مطالبہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ برس وائٹ ہاؤس نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کرنے والے طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔
رپورٹ: عاطف توقیر / خبررساں ادارے
ادارت : مقبول ملک