ڈرٹی بم ہوتا کیا ہے؟
30 اکتوبر 2022یوکرین اور روس دونوں ایک دوسرے پر ڈرٹی بم کے استعمال کے ارادوں کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ایسے بم کرتے کیا ہیں؟
یوکرین اور روس کی جنگ میں دونوں متحارب فریق ایک دوسرے پر ڈرٹی بم استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کے الزامات لگاتے رہے ہیں اور دونوں ہی اپنے خلاف ایسے الزامات کی تردید بھی کرتے رہے ہیں۔ کیا ایسے ہتھیار بہت تباہ کن ہوتے ہیں؟ ان کا استعمال کون کرتا ہے؟
ڈرٹی بم فی الحال پروپیگنڈا جنگ کا حصہ ہیں۔ روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگو نے یوکرین پر الزام لگایا کہ وہ خود اپنے علاقے میںڈرٹی بم استعمال کرنا چاہتا ہے اور الزام روسی فوج پر ڈالنا اور روسی قیادت کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور کئی مغربی حکومتوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ کییف حکومت کے نقطہ نظر سے معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ صدر زیلنسکی نے اس طرف اشارہ کیا کہ لگتا یہ ہے کہ ماسکو دراصل خود اس طرح کے منصوبے رکھتا ہے۔
ڈرٹی بم کیا ہیں؟
ڈرٹی بموں کو روایتی ہتھیار ہی کہا جاتا ہے جو تابکار مادے سے لدے ہوتے ہیں اور جو تابکاری کے ذریعے تھیراپی، خوراک کے تحفظ یا صنعتی مواد کی جانچ کے عمل میں سخت شرائط کے تحت استعمال کیے جاتے ہیں۔
ڈرٹی بم ایٹم بم نہیں
وفاقی جرمن فوج کے ایک سابق اہلکار اور جرمن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ سکیورٹی افیئرز (SWP) سے منسلک ماہر وولفگانگ رشٹر نے ڈوئچے ویلے کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''ڈرٹی بم کوئی ایٹم بم نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ کوئی جوہری بم نہیں، جن کے استعمال کے رد عمل سے بہت زیادہ طاقت ور اور دھماکہ خیز محرک پیدا ہو۔‘‘ رشٹر کے بقول جوہری بم کے برعکس ڈرٹی بم وسیع پیمانے پر مہلک تپش یا گرمی، فشار یا دباؤ اور سکشن لہروں کے ساتھ ساتھ انتہائی خطرناک نیوٹرون تابکاری پیدا کرتے ہیں، جو ہوا اور بارش کے ذریعےدور دور تک پہنچتے ہیں۔ وولفگانگ رشٹر نے ڈرٹی بموں کے فوری خطرے کے بارے میں کہا کہ ان کے دھماکے سے تابکاری پھیلتی ہے اور طویل المدتی اثرات صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم ان سب عوامل کا دار و مدار تابکاری کی مقدار پر ہوتا ہے۔ یہ مہلک بھی ہو سکتی ہے۔ دھماکے کی شدت پر تابکاری کی سطح کا انحصار ہوتا ہے۔ شدید نوعیت کے کسی دھماکے سے بہت بڑا یا وسیع علاقہ ایک خاص مدت کے لیے ناقابل رہائش بھی بن سکتا ہے۔
تابکاری کی دہشت کا دبا ہوا خوف
ڈرٹی بم کوئی نئی چیز نہیں تاہم اب تک انہیں دہشت گردی کے خطرے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 2003 ء میں تبلیسی اور بنکاک میں پولیس افسران نے فوری طور پر ریڈیو ایکٹیو سیزیم اور اسٹرونٹیم کی دو غیر قانونی کھیپیں ضبط کیں، جو مثال کے طور پرایک پورا ڈرٹی بم بنانے کے لیے استعمال کی جا سکتی تھیں۔ جرمن انسٹیٹیوٹ ایس ڈبلیو پی کے ایک دوسرے محقق گیبہارڈ گائیگر نے تب اس طرح کے دھماکہ خیز ڈیوائس کے لیے گنجان آباد علاقے میں بڑے پیمانے پر انخلا اور ایک ارب ڈالر کی لاگت سے کی جانے والی صفائی کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
ستمبر 2016ء میں امریکی وکیل اور صحافی اسٹیون برل نے امریکی سیاسی میگزین 'دی اٹلانٹک‘ میں نائن الیون کے حملوں کی 15 ویں برسی کے موقع پر اپنی کور اسٹوری 'کیا ہم محفوظ ہیں‘ کے ایک حصے کے طور پر اس موضوع پر روشنی ڈالی تھی۔ ان کے مطابق صرف 2013 ء اور 2014 ء میں 325 واقعات میں تابکار مواد کے گم یا چوری ہو جانے کی اطلاع دی گئی تھی۔ ان خطرات میں تابکاری کے ڈھکے چھپے نقصانات شامل نہیں ہیں۔ تب برل نے سیاست دانوں پر ان خطرات پر مناسب توجہ نہ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔
تابکار بم کا چرنوبل کے ری ایکٹر سے مقابلہ
جرمن ماہر وولفگانگ رشٹر کہتے ہیں، ''آپ اسے نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ہونے والے حادثے کے نتیجے میں تابکاری کے اخراج جیسا تصور کر سکتے ہیں۔ یہاں چرنوبل کی مثال دی جا سکتی ہے۔‘‘ 1986ء میں چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ کا ایک ری ایکٹر ناکام ہو گیا تھا۔ اس کے بعد سے جائے حادثہ کے ارد گرد 30 کلومیٹر کا علاقہ ممنوعہ علاقہ بنا ہوا ہے۔
تاہم مختلف وجوہات کی بناء پر جرمن فوج کے سابق افسر وولفگانگ رشٹر کے خیال میں اس بات کا امکان نہیں ہے کہ روس خود اس طرح کے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''روس روایتی طریقوں سے جنگ کی شدت پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
ڈرٹی بم کا حملہ مضحکہ خیز ہو گا
ڈرٹی بم کے حملے سے پیدا ہونے والی تابکاری اس کا استعمال کرنے والی فوج کے خود اپنے ہی دستوں کی سمت اڑے گی اور طویل مدت کے بعد ان علاقوں اور آبادی کے حصوں کو بھی آلودہ کر دے گی، جن کا اندازہ کریملن خود بھی لگائے بیٹھا ہے۔ وولفگانگ رشٹر کہتے ہیں، ''میرے خیال میں اس طرح کے بم کا استعمال نا صرف غیر ذمہ دارانہ عمل ہو گا بلکہ یہ مضحکہ خیز بھی ہو گا۔‘‘
رشٹر ڈرٹی بموں کے استعمال کے بارے میں قیاس آرائیوں کو روس اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں کشیدگی اور جنگی ماحول میں اضافے کا سب سے بڑا سبب سمجھتے ہیں۔ یہ خطرہ ان کے خیال میں سب سے بڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''یوکرین پہلے ہی روس کی طرف سے ممکنہ جوہری استعمال کے خلاف حفاظتی حملے کا عندیہ دے چکا ہے۔‘‘
ک م / م م (ژان والٹر)