ڈسپلن کی خلاف ورزی قبول نہیں ہو گی، مِکی آرتھر
9 مئی 2016مِکی آرتھر اپنی ملکی ٹیم جنوبی افریقہ کی 2005ء سے 2010ء تک کامیاب کوچنگ کر چکے ہیں۔ انہیں سابق فاسٹ بالر وقار یونس کی جگہ ٹیم کا نیا کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ بھارت میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد وقار یونس نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
مِکی آرتھر کا تقرر دراصل پاکستانی ٹیم کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے ٹیم اور اس کی منیجمنٹ میں لائی جانے والی بڑی تبدیلیوں کا حصہ ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستانی ٹیم کی حالیہ صورت حال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت یہ ٹیم ون ڈے رینکنگ میں نویں جب کہ ٹی ٹونٹی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے۔ ٹیم کی خراب صورت حال کی ذمے داری کھلاڑیوں کے بُرے نظم و ضبط پر بھی عائد کی جاتی ہے۔ پرتھ آسٹریلیا سے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے 47 سالہ آتھر کا کہنا تھا، ’’میں ڈسپلن کے حوالے سے بہت سخت ہوں گا، اور یہی طریقہ ہے کہ ہم بہتر سے بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔‘‘
آرتھر کا مزید کہنا تھا، ’’میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک ٹیم کے لیے کھیلنا شروع کر دے۔ میں کوئی خودغرض کھلاڑی نہیں چاہتا۔‘‘
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اپنے ڈسپلن کے حوالے سے زیادہ اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ اوپنر احمد شہزاد اور مڈل آرڈر بیٹسمین عمر اکمل کو جولائی میں طے شدہ انگلینڈ کے دورے کے لیے لگائے جانے والے ٹریننگ کیمپ میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ ڈسپلن کے حوالے سے ان کا رویہ ہے۔
پاکستانی ٹیم کے ایک سینیئر کھلاڑی یونس خان کو بھی حال ہی میں ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے دوران امپائرنگ کے خلاف احتجاج کے بعد ایک شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے معافی طلب کر لی تھی۔
نئے پاکستانی کوچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ فٹنس اور فیلڈنگ کے حوالے سے بھی سختی کریں گے، ’’ہماری بالنگ بہت اچھی ہے، مگر ہمیں اپنی بیٹنگ بہتر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔۔۔ میں فیلڈنگ اور فٹنس کے حوالے سے بھی سخت ہوں گا اور ایسے کھلاڑیوں چاہوں گا جو طویل عرصے تک کھیل سکیں، اور ان معاملات پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔‘‘
مِکی آرتھر پاکستانی ٹیم کے پانچویں غیر ملکی کوچ ہوں گے اور وہ دورہء انگلینڈ سے قبل پاکستانی ٹیم کا چارج سنبھالیں گے۔ اس دورے میں پاکستانی ٹیم میزبان ٹیم کے خلاف چار ٹیسٹ، پانچ ون ڈے اور ایک ٹی ٹونٹی کرکٹ میچ کھیلے گی۔ یہ میچز 14 جولائی سے شروع ہوں گے اور سات ستمبر تک کھیلے جائیں گے۔
اس کے بعد پاکستانی ٹیم دسمبر میں آسٹریلیا کا دورہ کرے گی جس میں تین ٹیسٹ اور چھ ون ڈے میچ کھیلے جائیں گے۔ ان دونوں سیریز کے درمیان پاکستانی ٹیم نیوز لینڈ اور ورلڈ ٹی ٹونٹی چیمپئن ویسٹ انڈیز کا بھی سامنا کرے گی۔ آرتھر کا کہنا تھا کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسی سخت ٹیموں کے خلاف ان کے ہوم گراؤنڈز پر کھیلنا پاکستانی ٹیم کے لیے کافی مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم اس چیلنج کے لیے مکمل طور پر تیار ہو۔