ڈورِس لیسنگ 90 برس کی ہو گئیں
30 اکتوبر 2009سن 2007ء میں ڈورِس لیسنگ کے لئے نوبل انعام برائے ادب کا اعلان اُن کی اٹھاسی ویں سالگرہ سے کچھ ہی پہلے کیا گیا تھا۔ سٹاک ہولم میں سویڈِش اکیڈمی آف سائنسز نے اپنے اعلان میں کہا تھا:’’ڈورِس لیسنگ ایک ایسی خاتون داستان گو ہے، جس نے تشکیک، جوش و جذبے اور اپنے خیال کی قوت سے مستقبل میں دور تک دیکھنے کی صلاحیت کے ذریعے انتشار کی شکار تہذیب کو جانچا اور پرکھا ہے۔‘‘
تب تک ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والوں میں سے تریانوے مرد تھے اور صرف دَس خواتین۔ ڈورِس لیسنگ یہ انعام پانے والی اب تک کی عمر رسیدہ ترین شخصیت ہیں۔ انعام پانے سے پہلے تین عشروں سے وہ ادب کے نوبیل انعام کے اُمیدواروں کی فہرست میں شامل چلی آ رہی تھیں۔ اِس انعام پر بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے تب اُنہوں نے کہا تھا کہ دیر سے ہی سہی لیکن بے شمار بین الاقوامی اعزازات کے ساتھ ساتھ اب بالآخر یہ انعام بھی اُن کے حصے میں آ ہی گیا۔ اُن کا ادبی کیریئر تقریباً چھ عشروں پر محیط ہے۔ اُن کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقہ کی چھاپ بے حد گہری رہی ہے۔
بائیس اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان شاہ میں ایک برطانوی فوجی افسر کے ہاں پیدا نے والی بچی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ ایران سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ نقل مکانی کر کے برطانیہ کی افریقی نو آبادی رہوڈیشیا چلی گئیں، جو آجکل زمبابوے کہلاتا ہے۔ 14 برس ہی کی عمر میں اُنہوں نے اسکول کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
افریقہ میں قیام کے دوران اور بعد میں بھی ڈورِس لیسنگ نسلی امتیاز کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی رہیں اور اِسی لئے عشروں تک اُن کے رہوڈیشیا اور جنوبی افریقہ کے سفر پر پابندی عائد رہی۔ رہوڈیشیا ہی میں بیس سال کی عمر میں پہلے اُنہوں نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کی، جس سے اُن کے دو بچے ہوئے۔ یہ بچے اُنہیں افریقہ ہی میں چھوڑنا پڑے۔ پھر اُنہوں نے جرمنی سے ترک وطن کر کے رہوڈیشیا میں جلاوطنی کی زندگی گذارنے والے ایک جرمن یہودی گوٹفریڈ لیسنگ سے شادی کی، جو 1949ء میں طلاق پر منتج ہوئی۔ تبھی وہ اِس شادی میں سے اپنے بیٹے پیٹر کو ساتھ لے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے انگلینڈ چلی آئیں۔
افریقہ سے اپنے سامان کے ساتھ وہ اپنے پہلے ناول ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ کا مسودہ بھی لائی تھیں، جس میں ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوعہ تعلق کو موضوع بنایا گیا تھا۔ تاہم جس کتاب نے اُنہیں عالمی شہرت بخشی، وہ تھی، 1962ء میں شائع ہونے والی کتاب، ’’دا گولڈن نوٹ بک‘‘، جو ابھی بھی اُن کی مشہور ترین ادبی تخلیق ہے۔ دُنیا بھر میں حقوقِ نِسواں کے علمبردار حلقے اِس کتاب کو اپنی تحریک کی نمایاں ترین علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم خود ڈورِس لیسنگ کی یہ منشا نہیں تھی۔
ڈورِس لیسنگ عمر بھر حقوقِ نِسواں کی تحریک کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ 2003ء میں اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو وہ حقوقِ نِسواں کی تحریک کی وجہ سے نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے بدلی ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس کے لئے کمیٹیاں بنائی جانی چاہییں، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، اپنی مرضی کے لوگ منتخب کر کے پارلیمان میں بھیجنے چاہیں، یہ ایک کٹھن، لمبا اور سست رفتار راستہ ہے لیکن اِسی پر چل کر منزل مل سکتی ہے۔‘‘
اُن کی بہن ارینےجرمنی کے بائیں بازو کے آج کل کے معروف ترین سیاستدان گریگور گیزی کی والدہ ہیں۔ ڈورِس لیسنگ آج کل لندن میں خاموش زندگی گذار رہی ہیں۔
رپورٹ : امجدعلی
ادارت : عاطف توقیر