ڈولفن سے متاثر ہو کر نئی ریڈار تکنیک ایجاد
29 اکتوبر 2013ریڈار کے ذریعے ہدف کی موجودگی کی نشان دہی ایک عمومی طریقہ ہے تاہم اس طرح وہ سنگلز بھی ہم تک پہنچ جاتے ہیں، جن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سگنلز کو ’کلٹّر‘ کہا جاتا ہے۔
برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس تکنیک کی مدد سے بموں اور جاسوسی کے آلات کا باآسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظام ملبے یا برف تلے دبے لوگوں کی نشان دہی کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے آواز اور ارتعاش کے ادارے سے وابستہ ٹیم نے ٹیموتھی لائٹون کی سربراہی میں اس موضوع پر تحقیق کی۔ یہ نظام لینیئر اور نان لینیئر لہریں منتشر کرتا ہے اور یہ ارتعاشی موجیں مقررہ چیزوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہیں، تو ان سے باآسانی ایک ’سن لی جانے والی تصویر‘ سی بن جاتی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس تیار کردہ آلے کی مدد سے ٹوین پلس سونار تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے باآسانی نیوٹرل آبجیکٹس کو لینئیر موجوں اور برقی آلات کے حامل آبجیکٹس کو نان لینیئر موجوں کی مدد سے الگ الگ لہروں کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق ڈولفن مچھلیاں بھی اسی نظام کے تحت آوازیں منتشر کرتی ہیں، جن کی مدد سے وہ اپنے کھانے کے سائز کی مچھلیوں کو دیگر مچھلیوں سے الگ کرتی ہیں اور ان تک پہنچتی ہیں۔
یہ تازہ تحقیق برطانوی سائنسی جریدے پروسیڈنگز آف رائل سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔ محققین نے ڈولفن کی اس تکنیک کو TWIPR کا نام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے تیار کردہ ریڈار Twin Inverted Pulse Radar کہلائے گا۔ ان محققین کا کہنا ہے کہ اس نئے ریڈار کو اس وقت موجود ریڈارز سے بہتر اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ یہ صرف آبجیکٹس ہی کی نشان دہی نہیں کرتا بلکہ اس کی مدد سے زمین میں چھپائے گئے بموں میں موجود برقی تاروں، جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے والے آلات اور عمارتوں کی دیواروں کے پیچھے موجود نیوٹرل آبجیکٹس مثلا پتھروں اور درختوں کی نشان دہی بھی ہو سکتی ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ اس طرح غیرضروری سنگلز کو ضروری سنگلز سے الگ کرنے میں مدد حاصل ہو سکے گی، کیوں کہ عام ریڈار صرف آبجیکٹس کا پتہ بتاتے ہیں تاہم ان کی نوعیت بتانے سے قاصر ہوتے ہیں۔