ڈولفنز ایک دوسرے کو نام سے پکارتی ہیں، نئی تحقیق
23 جولائی 2013اسکاٹ لینڈ کے مشرقی ساحلی علاقے میں موجود دوسو بوتل نما ناک والی Bottlenose Dolphins ڈولفنز پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ڈولفن وہ واحد غیر انسانی میملز ہیں جو اپنے قریبی دائرے میں ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کے لیے ناموں کا استعمال کرتے ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کی مصنفہ اسٹیفنی کنگ کے مطابق، ’’جانوروں کی دنیا میں ایک دوسرے کو نام سے پکارنے کا ثبوت ملنے کا یہ پہلا موقع ہے۔‘‘ اسٹیفنی کا تعلق اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز کے سی میملز ریسرچ یونٹ سے ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے خیال میں اس سے رابطے کے حوالے سے انسانوں اور ڈولفنز میں دلچسپ یکسانیت کے بارے میں حقائق سامنے آئے ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی بارے میں لوگوں کے اندازے تو تھے مگر اب تک اس بات کو تجرباتی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا تھا۔‘‘ اس تحقیق کے نتائج امریکا کے تحقیقی جریدے نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے ہیں۔
سائنسدان اس سے قبل یہ بات معلوم کر چکے ہیں کہ ہر ڈولفن اپنے زندگی کے ابتدائی چند ماہ میں ہی اپنی سیٹی کا منفرد انداز اپنا لیتی ہے جو دراصل اس کی پہچان یا نام ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ پانی میں بہت زیادہ وقت گزار کر اپنی اس پہچان کے بارے میں اپنی ساتھی ڈولفنز کو مطلع کرتی ہیں۔
کِنگ کے مطابق وائلڈ یعنی جنگلی ڈولفنز کی تقریباﹰ نصف تعداد کی سیٹیاں دراصل ان کی منفرد پہنچان ہوتی ہیں۔ کِنگ اور ان کے ساتھی محقق کو تجسس ہوا کہ ایسی صورت میں کیا ہوگا جب ایک ڈولفن یہ سنتی ہے کہ کوئی دوسری ڈالفن اس کی مخصوص سیٹی بجا رہی ہے۔ لہذا انہوں نے ڈالفنز کے ایک گروپ کی آوازوں کو ریکارڈ کیا اور پھر ان کی ان مخصوص منفرد آوازوں کو یکے بعد دیگرے سنا۔
اسٹیفنی کِنگ کے مطابق، ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جانور صرف اسی صورت میں رد عمل دیتے ہیں جب وہ اپنی مخصوص سیٹی کی آواز دوسروں کے منہ سے سنتے ہیں۔۔۔ ایسی صورت میں یہ واپس اپنی مخصوص سیٹی کی آواز میں جواب دیتے ہیں اور بعض اوقات کئی مرتبہ جواب دیتے ہیں۔ اگر ہم کوئی اور سیٹی کی آواز پیدا کریں تو یہ اس پر اس طرح کا کوئی رد عمل نہیں دیتے۔‘‘
اس سائنسدانوں نے اس طرح کی سیٹیوں کی آوازیں بھی بجا کر ڈولفنز کے رد عمل کا جائزہ لیا جو ان میملز کے لیے نامعلوم تھیں اور جو کسی دوسری جگہ موجود ڈولفنز کی آوازیں تھیں۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی آبادی میں موجود ڈالفنز کی سیٹیوں کی آوازوں کی ریکارڈنگ چلا کر بھی رد عمل نوٹ کیا: ’’جب یہ جانور اپنی ہی سیٹی کی آواز کی نقل سنتا ہے تو فوری طور پر جواب دیتا ہے، جبکہ دوسری کسی سیٹی کی آواز پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آتا۔‘‘
کنگ کے مطابق ڈولفنر تقریباﹰ آدھا وقت اپنی منفرد سیٹیوں کی آوازیں نکالتی ہیں۔ اب اگلا بڑا سوال یہ ہے کہ یہ باقی کی آدھی آوازیں نکالتی ہیں تو دراصل کیا باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اسٹیفنی کنگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں نہیں معلوم کے بقیہ 50 فیصد آوازیں کس مقصد کے لیے ہوتی ہیں۔ یہی دراصل ڈولفن کمیونیکیشن پر تحقیق کا اگلا قدم ہے۔‘‘