ڈی ڈبلیو کو انٹرویو کیوں دیا؟ ایرانی ماہر سیاسیات کو قید
14 مارچ 2018ایران حکومت کی طرف سے صادق زیبا کلام پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈا کا حصہ بنے اور انہوں نے ایران کے خلاف جھوٹ پھیلانے میں بھی مدد فراہم کی ہے۔
پروفیسر صادق نے ڈی ڈبلیو کی فارسی سروس کو رواں برس یکم جنوری کو دیے گئے ایک انٹرویو میں گزشتہ برس کے اختتام پر ایران میں پھیلنے والے بدامنی کے واقعات کے حوالے سے اظہار خیال کیا تھا۔
عدالت کی طرف سے سنائے جانے والے فیصلے میں پروفیسر صادق کو عوامی تقاریر کرنے اور بعض معاملات پر کسی قسم کی تحریر کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے انٹرویو دینے اور سوشل میڈیا کے استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
الزامات کے تحت انہوں نے ایسی معلومات دیں، جو جھوٹ پر مبنی تھیں اور ان کا مقصد معاشرے میں بدامنی و انتشار پیدا کرنا تھا۔ تیرہ مارچ کو اس فیصلے کے فورا بعد ڈی ڈبلیو کی پروفیسر صادق سے کچھ دیر کے لیے گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کو انقلاب مخالف اور دشمن ویب سائٹ قرار دیا ہے۔
اس عدالتی فیصلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کے سربراہ پیٹر لیمبورگ کا کہنا ہے، ’’میڈیا کو دشمن کا درجہ دینا تہران حکومت کی ایک آمرانہ علامت ہے۔ اس طرح کے فیصلوں کی بجائے، انہیں اپنی کمزوریوں کا علم ہونا چاہیے۔ ہم پروفیسر صادق زیبا کلام کے کیس کی پیروی کریں گے اور ان کی حمایت جاری رکھیں گے۔‘‘
ایران میں آرٹیکل نمبر پانچ سو کے تحت ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کو تین سے بارہ ماہ تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ تہران میں پاسداران انقلاب عدالت کی طرف سے اٹھارہ ماہ کی سخت ترین سزا اس وجہ سے سنائی گئی ہے کہ عدالت کی نظر میں پروفیسر صادق کئی مرتبہ پہلے بھی ایسا ہی ’جرم‘ کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں پروفیسر صادق کا کہنا تھا کہ ایران میں نظام حکومت کے حوالے سے اگر آج کوئی ریفرنڈم کروایا جائے تو اس ملک کی ستر فیصد آبادی اسلامی جمہوریہ کی مخالفت میں ووٹ دیں گے۔