ڈیزائنر ڈرگز صحت کے ليے خطرات کا باعث، رپورٹ
5 مارچ 2013ان ادویات کو عرف عام میں نفسیاتی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے والے مادے یا پھر legal highs اور designer drugs بھی کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ایسی ادویات اور طبی مصنوعات کے استعمال کی شرح میں اتنی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے کہ اب ایسے طبی مادوں کے تجارتی پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی پیمانے پر کاوشیں ضروری ہو چکی ہیں۔
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم انٹر نیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ (INCB) نے منگل کے روز جاری کردہ اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایسی ادویات کی تیاری اور تجارت میں اتنا اضافہ ہوا ہے جس کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
یورپی منڈیوں میں فروخت کے لیے دستیاب ان ڈیزائنر ڈرگز کی مجموعی اقسام میں اتنی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے کہ ایسی کوئی نہ کوئی نئی پروڈکٹ ہر ہفتے مارکیٹ میں آ رہی ہے۔ آئی این سی بی کے سربراہ ریمنڈ یانس Raymond Yans کے مطابق ماضی میں صورت حال یہ تھی کہ سن2000 اور 2005 کے درمیانی عرصے میں سالانہ بنیادوں پر ایسی اوسطا صرف پانچ نئی مصنوعات مارکیٹ میں آتی تھیں۔
منشیات کے خلاف بین الاقوامی بورڈ کی اس رپورٹ کے مطابق ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر کی مارکیٹوں میں ایسی ہزاروں قسموں کی ادویات فروخت کے لیے دستیاب ہیں، جن کے خریداروں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
آئی این سی بی کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان نام نہاد طبی مصنوعات کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے غلط استعمال کی شرح بھی بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ اسی لیے ایسے صارفین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے جنہیں ان ادویات کی وجہ سے لاحق ہونے والے صحت کے شدید خطرات کے باعث ہسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
ان مسائل میں شدت کا سبب بننے والی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسی ڈیزائنر ڈرگز عام طور پر بین الاقوامی نگرانی کے نظام کی گرفت میں نہیں آتیں۔ یہ ادویات انٹرنیٹ پر بڑی آسانی سے خریدی جا سکتی ہیں۔
انٹر نیشنل نارکوٹکس کنٹرول بورڈ نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کو ایسی ادویات کا پتہ چلانے کے لیے نئے راستے نکالنا ہوں گے اور ان کی ڈسٹریبیوشن روکنا ہو گی۔
اس کے علاوہ ایک اور پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر صارفین میں ان ادویات کے غلط استعمال کی شرح بھی بڑھتی جا رہی ہے جو صرف کسی ڈاکٹر کا لکھا نسخہ دکھا کر ہی خریدی جا سکتی ہیں۔ ایسی ادویات میں درد کے خلاف استعمال ہونے والی دوائیں، سکون بخش ادویات اور ذہنی پریشانی یا بیماریوں کے خلاف تجویز کی جانے والی طبی مصنوعات سرفہرست ہیں۔
رپورٹ کے مطابق عام طور پر ڈاکٹری نسخے کے ذریعے حاصل کی جانے والی ادویات کا غلط استعمال شمالی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بہت عام ہے، جہاں لوگ نشے کی خاطر یہ ادویات سرنج کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ایسے افراد میں ایچ آئی وی وائرس یا پھر ہیپیٹائٹس بی اور سی کا شکار ہو جانے کے خطرات بہت زیادہ ہو جاتے ہیں۔
آئی این سی بی کا کہنا ہے کہ لاطینی امریکا میں تو چند ملک ایسے بھی ہیں جہاں ہائی اسکولوں کے چھ فیصد طلباء کسی نہ کسی شکل میں سکون آور ادویات کا غلط استعمال کر چکے ہیں۔
اسی رپورٹ میں امریکا، خاص کر ریاست کیلی فورنیا پر اس لیے شدید تنقید کی گئی ہے کہ وہاں گانجے کے استعمال سے متعلق میڈیکل اسکیم کے بعد سے اس نشہ آور مادے کے غلط استعمال کی شرح میں کافی اضافہ ہو چکا ہے۔
اس رپورٹ میں واشنگٹن حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خاص قسم کے نشہ آور مادوں سے متعلق اپنی پالیسیوں میں بین الاقوامی ضابطوں کا پورا دھیان رکھے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسی ادویات عام لوگوں کو تفریح کے طور پر استعمال کے لیے دستیاب نہ ہوں۔
ویانا میں قائم بین لاقوامی نارکوٹکس کنٹرول بورڈ منشیات سے متعلق پالیسیوں کے شعبے میں ہر سال مختلف حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو اپنی سفارشات بھی پیش کرتا ہے۔ ایسے عالمی اداروں میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے۔
ij / ia ( AFP)