ڈیزل کی اسمگلنگ افیون سے زیادہ منافع
1 اپریل 2013پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں ہو شربا اضافہ ہوا ہے، لہذا وہاں اسمگلرز کی چاندی ہوگئی ہے اور وہ ڈیزل اسمگلنگ کے نت نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ ڈیزل کو پیپسی کی بوتلوں میں بھر کر بچوں کے ذریعے اسمگل کرواتے ہیں تو کچھ پلاسٹک کے ڈرموں میں بھر کر خچروں کے ذریعے۔ چھوٹی پک اپ گاڑیاں بھی تیل سے بھرے ڈرموں کو اسمگل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں مانگ زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈیزل ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے۔ وہاں تیل کی اسمگلنگ میں منافع اتنا زیادہ ہے کہ افیون کی خرید و فروخت کرنے والے بھی اپنا کام چھوڑ کر اس دھندے سے منسلک ہورہے ہیں۔ پاکستان میں غیر قانونی ایرانی تیل کی فروخت تیزی سے پھیلتا ہوا ایک محفوظ اور منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔
ایرانی سرحد کے قریب غیر قانونی اشیاء کی نقل و حمل کے مرکز پاکستانی شہر مند میں افیون کے ایک سابق اسمگلر کا کہنا ہے جب ڈیزل کی اسمگلنگ میں محفوظ طریقے سے زیادہ پیسہ ملتا ہے تو پھر افیون اسمگل کرکے جان جوکھوں میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ حامد نامی اس شخص نے مزید کہا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اب کوئی اسے اسمگلر نہیں کہتا کیونکہ اب وہ تیل کا ڈیلر ہے۔
پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ایرانی تیل کی غیر قانونی فروخت ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں، کم آبادی، مسلح قوم پرست تحریکوں، افغان دراندازی، دشوار گذار علاقے اور طویل سرحد کی وجہ سے وہاں سیکورٹی اداروں کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ علاقہ مختلف انواع کی غیر قانونی اشیاء کی اسمگلنگ کے ایک روٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
پاک ایران سرحد پر تیل کی یہ غیر قانونی تجارت سن2010 میں اس وقت عارضی طور پر ماند پڑ گئی تھی جب ایرانی حکومت نے تیل کی مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کر دی جس کی وجہ سے وہاں ان مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ لیکن گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جانب سے ایران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیوں کے بعد ایرانی ریال کی قدر میں کمی اور ایران حکومت کی جانب سے تیل کی قیمت کم کیے جانے کے بعد ایک بار پھر اسمگلروں کے کاروبار چمک اٹھے۔
ایران میں ڈیزل کی فی لٹر قیمت 4500 ایرنی ریال ہے جو 15امریکی سینٹ کے مساوی ہے، پاکستانی کرنسی میں یہ 25 روپے بنتی ہے جبکہ پاکستان میں اوگرا کی جانب سے ہائی اسپیڈ ڈیزل کی مقرر کردہ قیمت 109 روپے فی لیٹر ہے۔ اسمگل شدہ ڈیزل 104 روپے فی لیٹر میں فروخت کی جاتا ہے۔
’تیل کے تاجروں‘ کا کہنا ہے وہ یقین سے تونہیں کہہ سکتے لیکن اندازاﹰ ہر روز بلوچستان میں 100سے130 آئل ٹینکر ایران سے اسمگل شدہ تیل سے بھرے جاتے ہیں اور ہر ٹینکر کی گنجائش 25 سے40 ہزار لیٹر ہوتی ہے۔ یہ غیر قانونی تجارت مقامی حکام کی ملی بھگت سے جاری ہے۔ پاکستان کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ وسائل میں کمی کے باعث وہ اس غیر قانونی تجارت کو روکنے میں ناکام ہیں۔ وہ جلد ایک ہزار اہلکاروں پر مشتمل اینٹی اسمگلنگ فورس قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کی ریاستی تیل کمپنی پی ایس او ملکی ضروریات پورا کرنے کے لیے کویت پٹرولیم کمپنی سے ہرسال 2.7 ملین ٹن سے 3ملین ٹن (20ملین سے 22ملین بیرل ) تیل خریدتی ہے۔ بلوچستان کے راستے اسمگل شدہ تیل جہاں پاکستان میں فروخت ہوتا ہے وہیں افغانستان میں بھی اس کی غیر قانونی فروخت نے امریکا کو بھی تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔
zb/aba(Reuters)