ڈیمینشیا کے مریض لاکھوں، طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر
3 مئی 2019ڈیمینشیا بڑھاپے میں انسانی دماغ اور اعصاب کی کارکردگی کو متاثر کرنے والی ایک ایسی بیماری ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید تر ہوتی جاتی ہے۔ الزائمر نامی بیماری بھی ڈیمینشیا ہی کی ایک شکل ہے۔ پاکستان میں، جہاں کروڑوں شہری غربت کا شکار ہیں اور علاج معالجے کی مناسب طبی سہولیات تک ہر شہری کو بروقت اور مکمل رسائی حاصل نہیں ہوتی، ڈیمینشیا کے مریضوں کی اکثریت خاص طور پر برے حالات کا شکار رہتی ہے۔
کم یا بہت کم مالی وسائل والے پاکستانی گھرانوں کے ایسے مریض اُس طرح کی طبی دیکھ بھال سے محروم رہتے ہیں، جیسی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے مریضوں کو دستیاب ہوتی ہے۔ پاکستان میں ڈیمینشیا کے زیادہ تر مریضوں کے بارے میں سماجی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ’سٹھیا‘ گئے ہیں یا ’مخبوط الحواس‘ ہو گئے ہیں اور ان کی مستقل نگہداشت کرنے کے بجائے بہت سے واقعات میں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباﹰ 1550 شہری ڈیمینشیا اور الزائمر کی بیماری سے جڑے اسباب کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد پاکستان میں عام شہریوں کی کل سالانہ اموات کا تقریباﹰ 1.3 فیصد بنتی ہے۔ کئی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیمینشیا اور الزائمر کی بیماری کے باعث اموات کی موجودہ شرح اس سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے، جتنی عالمی ادارہ صحت نے دو سال قبل پاکستان سے متعلق اپنے گزشتہ اعداد و شمار میں بتائی تھی۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے نیورو سرجن ڈاکٹر احسان الرحمٰن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ دماغ کی کمزوری کو ڈیمینشیا کہتے ہیں، جو عموماﹰ ایک موروثی بیماری ہوتی ہے اور جس کی انتہائی حالت میں اکثر مریض کھانا پینا بھی بھول جاتے ہیں: ’’یہ بیماری عمر کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے اور مریض کی حالت بگڑتی جاتی ہے۔ ڈیمینشیا کئی مختف بیماریوں کی وجہ سے ہوتا ہے، جن میں سے الزائمر سب سے عام ہے۔ جیسے جیسے دماغ کے خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور آخرکار وہ مرنا شروع ہو جاتے ہیں، ویسے ویسے اس مرض کی علامات میں شدت اختیار کرتی جاتی ہیں۔ بہت سے واقعات میں فالج، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور ذیابیطس بھی اس مرض کی وجہ بن سکتے ہیں۔ طبی حوالے سے ڈیمینشیا کئی طرح کا ہوتا ہے لیکن اگر اس کی مختلف صورتیں کسی مریض پر اگر بیک وقت یا ایک ایک کر کے حملہ کر دیں، تو وہ مکسڈ ڈیمینشیا کہلاتا ہے۔‘‘
نیورولوجسٹ ڈاکٹر احسان الرحمٰن کے بقول یہ مرض جان لیوا اس وقت ہوتا ہے، جب اپنی بہت پیچیدہ حالت میں پہنچ جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مزید بتایا، ’’بعض ادویات ایسی ہیں، جو وقتی طور پر تو کارگر ہوتی ہیں اور مریضوں کے لیے روزمرہ زندگی کے معاملات کو کچھ آسان بنا دیتی ہیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی دوا دستیاب نہیں، جو ڈیمینشیا کو روک سکے۔ کچھ اجتماعی سماجی سرگرمیاں لیکن ایسی ہوتی ہیں، جن کو اپنا کر ڈیمینشیا کے مریض اس مرض کی علامات کی موجودگی کے باوجود کچھ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘‘
نیورو سرجن احسان الرحمٰن کہتے ہیں، ’’پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ایک بھی ڈیمینشیا اسپیشلسٹ نہیں ہے۔ نیورو سرجن ہی ایسے مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ بلکہ اس مرض کو ایک ٹیم ورک کے تحت دیکھا جاتا ہے، جس میں نیورو سرجن سے لے کر طبی اور جسمانی بحالی کے ماہر ڈاکٹر یا ری ہیبیلیٹیشن اسپیشلسٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہسپتال میں روزانہ دو تین ڈیمینشیا کے ایسے مریض ضرور آتے ہیں، جن کی عمریں ساٹھ سال سے زائد ہوتی ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ مرض بہت زیادہ نہیں ہے۔ ڈیمینشیا کے مریضوں کے لیے دوا کے بجائے نپی تلی خوراک زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے کیونکہ اس کی مدد سے اس بیماری سے پیدا ہونے والی جسمانی پیچیدگیوں کے ازالے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال سے منسلک ماہر نفسیات سنعیہ اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں الزائمر انسانی اموات کی وجہ بننے والی بڑی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت دنیا بھر میں کروڑوں انسان ڈیمینشیا کا شکار ہیں۔ اس بیماری کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا لیکن وقت کے ساتھ اس کی شدت کی رفتار کم کی جا سکتی ہے۔ باقاعدگی سے جسمانی ورزش، بلڈ پریشر معمول پر رہنا، خون میں کولیسٹرول کی سطح کا مناسب ہونا، ان سب عوامل سے فائدہ پہنچتا ہے۔ بہت سے بزرگ مریض اگر گھر سے اکیلے نکلیں، تو گم ہو جاتے ہیں۔ انہیں طرح طرح کی چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ ایسے کسی مریض کی حادثاتی موت بھی عین ممکن ہے۔ اس لیے ایسے مریضوں کی طبی، جسمانی اورسماجی سطحوں پر مکمل دیکھ بھال انتہائی ضروری ہوتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر سنعیہ اختر نے مزید بتایا کہ یہ مرض ذہنی خلیات کے معمول سے زیادہ شرح سے مرتے جانے سے پیدا ہوتا ہے اور کسی مریض کے اس کا شکار ہو جانے میں بلڈ شوگر میں غیر معمولی کمی بھی اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، جس سے یادداشت متاثر ہونے لگتی ہے، جو مزید بگڑ جائے تو الزائمر اور ڈیمینشیا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بہت تیز آنچ پر پکائے گئے کھانوں میں بھی ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو الزائمر کا باعث بن سکتے ہیں۔ وہ تمام کھانے، جن میں نمک بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، دماغی صحت اور بلڈ پریشر کو متاثر کر سکتے ہیں۔ جدید ریسرچ کے مطابق روزانہ ایک نارنجی کھانے سے ڈیمینشیا کے حملے کا خطرہ پچیس فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ انگور اور لیموں بھی اس بیماری کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔‘‘
اسلام آباد کی رہائشی سعدیہ خان کی والدہ کا انتقال اسی سال ہوا ہے۔ وہ بھی ڈیمینشیا کا شکار تھیں۔ سعدیہ خان ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’میری والدہ کو ذیابیطس کے علاوہ بلڈ پریشر کے مسئلے کا سامنا بھی تھا۔ اسی وجہ سے وہ ڈیمینشیا کا شکار بھی ہو گئی تھیں۔ وہ بار بار ایک ہی سوال دہراتی تھیں۔ انہیں مختلف چیزوں، جگہوں اور دوستوں رشتے داروں کے نام بھی بھولنے لگے تھے۔ بعد میں ان کے لیے قابل فہم گفتگو کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر جیسے جیسے ان کی بیماری شدید ہوتی گئی، ان کے لیے کھانا کھانا، نہانا اور لباس بدلنا تک مسئلہ بن گیا تھا۔ آخری وقت میں تو انہوں نے بات چیت کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘