کئی ملین افغان مہاجرین کے لیے عالمی مدد درکار ہے، پاکستان
23 جون 2016پاکستانی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کے بحران کی ایک وجہ کئی دہائیوں سے شورش کے شکار ملک افغانستان سے پاکستان میں بسنے والے کئی ملین مہاجرین بھی ہیں، جن کی بہبود کے لیے اس بین الاقوامی برادری کی مدد درکار ہے۔
افغانستان میں سن 1979ء میں سوویت عسکری مداخلت کی وجہ سے قریب ’پانچ ملین مہاجرین‘ پاکستان پہنچ گئے تھے، اس وقت بین الاقوامی برادری نے پاکستان کی مدد بھی کی تھی۔
یہ بات پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سرحدی علاقہ جات عبدالقادر بلوچ نے بدھ کے روز دارالحکومت اسلام آباد میں افغان مہاجرین کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ 37 برس بعد اب بھی پاکستان میں قریب ڈیڑھ ملین رجسٹرڈ مہاجرین موجود ہیں، جب کہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بغیر دستاویزات کے بھی پاکستان میں رہ رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی غیریقینی کی صورت حال کی وجہ سے ان مہاجرین کی وطن واپسی کے پروگرام مسائل کے شکار رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دس برسوں میں اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے دی جانے والی امداد تقریباﹰ ختم ہو چکی ہے اور اب پاکستان کو مہاجرین کا بوجھ تنہا ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو مہاجرین کی بہبود کی مد میں سالانہ بنیادوں پر فی مہاجر پانچ ڈالر اور بیس سینٹ ملتے ہیں، جن کا مقصد ان مہاجرین کے لیے تعلیم اور صحت کی سہولیات کو یقینی بنانا ہے اور یہ ایک نہایت مشکل امر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ سرمایہ مہیا بھی صرف اور صرف رجسٹرڈ مہاجرین کے لیے کیا جاتا ہے اور بغیر دستاویزات پاکستان میں رہنے والے غیر رجسٹرڈ مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کی کسی بھی طرح کی مدد نہیں کی جاتی۔
انہوں نے ترکی کے مقابلے میں پاکستان کو اس مد میں دی جانے والی انتہائی کم امداد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک خود اس مسئلے سے دوچار ہوئے ہیں، تب انہیں اس مسئلے کی سنگینی کا علم ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں تیس فیصد کا تعلق افغانستان سے ہے اور جب تک پاکستان کی مناسب انداز سے مدد نہیں کی جاتی، یہ بہاؤ کم نہیں ہو گا۔