کئی ملین پاکستانی سیلاب متاثرین کو غذائی بحران کا سامنا
3 اکتوبر 2022اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی جانب سے یہ انتباہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا، جب پیر تین اکتوبر کے روز پاکستان میں سیلابوں اور ان کے نتائج کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ذمے دار قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق اس سال مون سون کی غیر معمولی بارشوں کے بعد آنے والے سیلابوں کے نتیجے میں تقریباﹰ 1700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیلابی تباہی کے بعد خوراک کی قلت کا خطرہ ہے، شہباز شریف
ان سیلابوں سے 33 ملین شہری متاثر ہوئے، 20 لاکھ سے زائد گھروں کو نقصان پہنچا اور لاکھوں افراد بے گھر ہو جانے کے بعد ابھی تک خیموں یا عارضی رہائش گاہوں میں مقیم ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیوں کے رابطہ دفتر (اوسی ایچ اے) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا کہ موجودہ سیلابوں سے پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا خدشہ ہے اور یہ کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ستاون لاکھ افراد کو ستمبر اور نومبر کے درمیان غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق سیلاب سے پہلے بھی پاکستان کی آبادی کا 16فیصد حصہ درمیانے یا شدید نوعیت کے غذائی عدم تحفظ کا شکار تھا۔ تاہم پاکستانی حکومت کا اصرار ہے کہ وہ فوری طور پر متاثرین کو خوراک کی فراہمی کے بارے میں فکر مند نہیں کیونکہ اگلی فصل بیجے جانے تک ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں اور یہ کہ حکومت مزید گندم درآمد بھی کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے نے پیر کے روز ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایجنسی اور دوسرے شراکت داروں نے پاکستان میں سیلابوں کے بعد اپنے ردعمل میں اضافہ کیا ہے اور سیلاب سے براہ راست متاثر ہونے والے سولہ لاکھ شہریوں تک امداد پہنچائی گئی ہے۔ او سی ایچ اے نے کہا سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سےپیدا ہونے والی اور دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
متعدد ممالک اور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے پاکستانی سیلاب متاثرین کے لیے اب تک 131 سے زائد امدادی پروازیں بھجوا چکے ہیں، لیکن بہت سے متاثرین یہ شکایت کر رہے ہیں کہ انہیں یا تو بہت کم امداد ملی ہے یا وہ اب بھی مدد کے منتظر ہیں۔ او سی ایچ اے کی رپورٹ کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں گزشتہ ہفتے کے دوران بارشوں کی شدت میں کمی آئی اور سردیوں کی آمد سے قبل وہاں درجہ حرارت میں کمی بھی ہونا شروع ہو گئی۔ سندھ کے 22 میں سے 16 اضلاع میں سیلاب کا پانی 34 فیصد تک کم ہو چکا ہے جبکہ بعض مقامات پر اس میں 78 فیصد تک کی کمی دیکھی گئی ہے۔
او سی ایچ اےکی رپورٹ میں سیلاب زدگان کی مشکلات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ بہت سے متاثرین عارضی طور پر انتہائی نامساعد حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سیلاب کے متاثرین کی عارضی رہائش گاہوں اور اکثر پناہ گاہوں میں بنیادی ضروریات تک رسائی بہت محدود ہے اور یہ صورتحال صحت عامہ کے ایک بڑے بحران کے خطرے میں اضافے کا سبب ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حاملہ خواتین کا علاج عارضی کیمپوں میں کیا جا رہا ہے اور تقریباﹰ ایک لاکھ 30 ہزار حاملہ خواتین کو صحت کی ہنگامی خدمات کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ پاکستانی سیلاب متاثرین کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے ان کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر اپنی طرف سے امداد کی ایک نظر ثانی شدہ اپیل بھی جاری کرے گا، جس میں بین الاقوامی برادری سے اضافی طور پر 800 ملین ڈالر کی فراہمی کی درخواست کی جائے گی۔
ش ر ⁄ م م (اے پی)