کابل ایئرپورٹ کے قریب بڑے دھماکے اور فائرنگ
10 جون 2013دھماکوں کا یہ سلسلہ مقامی وقت کے مطابق صبح 4:30 پر شروع ہوا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عسکریت پسندوں نے خودکش حملے کے بعد ایئرپورٹ کے قریب ایک عمارت پو قبضہ کر لیا ہے۔ امریکی سفارت خانے میں خطرے کے الارم بچتے سنائی دیے جس کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر پر یہ وارننگ بھی دی جاتی رہی کہ یہ الارم بطور ڈرل نہیں بجائے جا رہے۔
اے ایف پی نے کابل کے پولیس سربراہ حشمت ستانکزئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ کابل ایئرپورٹ کے مغربی حصے میں قصابہ روڈ پر موجود ایک عمارت میں خودکش حملہ آوروں نے داخل ہو کر فائرنگ شروع کردی: ’’اس وقت یہ علاقہ سکیورٹی فورسز نے سِیل کر دیا ہے اور فورسز اور حملہ آوروں میں فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا ہے۔‘‘
ستانکزئی کے مطابق وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ حملے کا اصل نشانہ کونسا مقام ہے، تاہم دھماکوں کی آواز ایئرپورٹ کے شمال مشرقی حصے کی جانب سے سنائی دی جو شہر کی جانب ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے کابل پولیس کے سربراہ حشمت ستانکزئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے ایک زیر تعمیر عمارت پر قبضہ کیا جس کے بعد انہوں نے شمالی جانب سے کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حملہ کیا۔ ستانکزئی کے بقول ابھی تک ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق کابل ایئرپورٹ کی شمالی جانب ملٹری ایئربیس موجود ہے جو نیٹو کی سربراہی میں بین الاقوامی امدادی افواج استعمال کرتی ہیں۔ جوائنٹ کمانڈ کا دفتر بھی اسی جگہ موجود ہے جو افغان فورسز کا آپریشنل ہیڈکوارٹرز ہے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا: ’’ہاں ہم اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آج صبح مجاہدین نے کابل ایئرپورٹ کے ملٹری حصے کو نشانہ بنایا۔‘‘
کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے جنرل منیجر یعقوب رسولی نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بظاہر اس حملے کا نشانہ ملٹری ایئربیس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام اندرون اور بیرون ملک پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
aba/ng (AFP, dpa)