کابل حملہ، ہلاکتوں کی تعداد تریسٹھ ہو گئی
27 جنوری 2018امریکا کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ تیز کیے جانے کی حکمت عملی کے باوجود افغانستان میں طالبان کے حملوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال ستائیس جنوری بروز ہفتہ کابل میں ہونے والا ایک تازہ خودکش حملہ بھی ہے۔
گزشتہ آٹھ دنوں کے دوران افغان دارالحکومت میں طالبان باغیوں نے دوسری بڑی کارروائی کی ہے۔ ہفتے کے روز جب کابل شہر کے مرکزی حصے میں واقع وزارت داخله میں دوپہر کے کهانے اور نماز ظہر کا وقفه تها، تو ایک مشکوک ایمبولینس بیرونی دروازے پر آکر رکی، جسے جب اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تو اس میں موجود طالبان حمله آور نے گاڑی میں لدے بارودی مواد کو ایک بهیانک دهماکے کے ساتھ اڑا دیا۔
کابل میں ایک اور دھماکا، کم ازکم چالیس افراد ہلاک
افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ
حملہ آوروں کو ممکنہ طور پر اندرونی مدد حاصل تھی، افغان حکام
ابتدائی طور پر چالیس ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی لیکن بعدازاں یہ تعداد بڑھا کت تریسٹھ کر دی گئی۔ طبی ذرائع کے مطابق اس خونریز کارروائی کے نتیجے میں ایک سو ساٹھ سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کچھ زخمیوں کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
وزارت داخله کے نزدیک ہی جس عمارت کو طالبان نے نشانه بنایا ہے وه عام آبادی، بازار، حکومتی دفاتر اور سرکاری ہسپتال سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ وزارت صحت کے ترجمان اسماعیل کاووسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که شفاخانه جمہوریت، شفاخانه داود خان، شفاخانه ایمرجنسی اور شفاخانه ملی امنیت میں زخمیوں کی ایک بڑی تعداد کا ہنگامی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں گزشته کئی دہائی سے جنگ زده افراد کو طبی خدمات فراہم کرنے والے اطالوی ڈاکٹر Dejan Panic نے اس تازہ حملے کو ’قتل عام‘ قرار دیے دیا ہے۔دفاعی امور کے ماہر بریگیڈیئر (ر) محمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که ایک طرف امریکی اور افغان افواج نے ہلمند، ننگرہار، قندوز اور دیگر صوبوں میں طالبان اور داعش خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں، تاہم جواب میں عسکریت پسندوں نے دارالحکومت کابل کو نشانه بنا رکها ہے، ’’
عمومی طور پر موسم سرما کے بعد طالبان اپنی سالانه جنگی کارروائیوں کا آغاز کرتے ہیں، مگر اب طالبان اور دیگر گروپ امریکا کی نئی حکمت عملی کے جواب میں اس سے قبل ہی اپنی کارروائیوں میں شدت لاکر شکست نه ماننے کا پیغام دے رہے ہیں۔‘‘
طالبان کے ترجمان ذبیح الله مجاہد نے سوشل میڈیا پر نشر کیے گئے ایک پیغام میں لکها کہ ’منصوری عملیات‘ گزشته برس اعلان کیے گئے سالانه حملوں کا حصه ہے۔ طالبان نے یہ حملے اپنے سابق لیڈر ملا منصور سے منسوب کر رکھے ہیں۔ مجاہد نے دعوی کیا ہے که اس حملے میں ہلاک ہونے والے ’تمام افراد پولیس اہلکار‘ تھے۔ مقامی ٹیلی وژن پر نشر کی جانے والی تصایر میں البته بچوں سمیت عام شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو خون میں لت پت دیکها جاسکتا ہے۔
ٹهيک ایک ہفته قبل ہی پانچ طالبان عسکریت پسندوں نے کابل شہر کے معروف انٹرکانٹینینٹل ہوٹل پر دهاوا بولا تها، جس میں مقامی اور غیر ملکی مہمانوں سمیت بیس سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے میں مارے جانے والے بیشتر غیر ملکی افراد افغانستان کی نجی ’کام ایئر‘ نامی فضائی کمپنی کے کارکن تهے ، اور تب سے کام ایئر نے روزانه کی بنیادوں پر 20 سے زائد پروازیں منسوخ کر رکهی ہیں۔
افغان صدر محمد اشرف غنی نے حاليه ’غیر انسانی دہشت گردانه حملے‘ میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کی پر زور مذمت کی ہے، ’’افغانستان کے دشمنوں کو یه سمجحنا چاہیے که وه اس تهونپی گئی جنگ میں شکست خورده ہیں، اور ہماری سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیوں کے لیے عوام اور بین الاقوامی برادری کی مکمل حمایت حاصل ہے۔‘‘
تجزیه نگار وں کا خیال ہے کہ اگست 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کی گئی نئی جنگی پالیسی کے باعث صورتحال زیاده کشیده ہ چکی ہے۔ اس صورتحال میں امن عمل کی ناکامی کے بعد ایسے میں دونوں اطراف کے ساتھ ساتھ اور زیاده سویلین افراد کی جانیں ضائع ہونے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔