کابل میں ایرانی کتاب میلے پر خونریز حملے میں انیس افراد ہلاک
2 نومبر 2020یہ حملہ کابل یونیورسٹی میں اہتمام کردہ ایرانی کتب کے اس میلے پر کیا گیا، جس میں افغانستان میں ایران کے سفیر کو بھی شرکت کرنا تھی۔ بظاہر اس حملے کا مقصد ایرانی سفیر کو نشانہ بنانا بھی تھا کیونکہ عسکریت پسندوں نے یہ خونریز کارروائی اس بک فیئر کے افتتاح سے کچھ ہی دیر پہلے کی۔ اس وقت متعدد اہم حکومتی اور سفارتی شخصیات اس میلے کے افتتاح کے لیے وہاں پہنچنے ہی والی تھیں۔
کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر حملہ، کم از کم 10 طلبا ہلاک
اس خونریز واقعے میں تین مسلح حملہ آوروں نے یونیورسٹی میں کتاب میلے کی جگہ پر پہنچ کر فائرنگ کرنا شروع کر دی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد سکیورٹی دستے بھی وہاں پہنچ گئے، اور ان کا حملہ آوروں کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا، جو پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔
افغانستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ
کابل یونیورسٹی افغانستان کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے اور وہاں آج پیر دو نومبر کو کیے گئے ہلاکت خیز حملے کے بارے میں ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے صحافیوں کو بتایا، ''یہ حملہ افغانستان کے دشمنوں اور تعلیم کے دشمنوں نے کیا، جس میں اب تک کم از کم انیس افراد کی ہلاکت اور بائیس دیگر کے زخمی ہونے کی تصدیق کی جاتی ہے۔‘‘
افغانستان: جنوری سے ستمبر تک چھ ہزار عام شہری ہلاک یا زخمی
طارق آریان کے مطابق، ''حملہ آور تین تھے، جو سکیورٹی دستوں کے ساتھ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔‘‘ ابھی تک کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ تاہم افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں واضح کر دیا ہے کہ یہ حملہ نہ تو طالبان کے جنگجوؤن نے کیا اور نہ ہی طالبان کا اس سے کوئی تعلق ہے۔
پانچ گھنٹے بعد بھی دستی بموں کے دھماکوں کی آوازیں
خبر رساں ادارے اے پی نے لکھا ہے کہ اس حملے کے آغاز کے پانچ گھنٹے بعد تک بھی کابل یونیورسٹی سے وقفے وقفے سے فائرنگ اور دستی بموں کے دھماکوں کی آوازیں سناتی دے رہی تھیں۔
افغان صوبے نیمروز میں طالبان کا حملہ، کم از کم بیس فوجی ہلاک
کابل یونیورسٹی افغانستان کا نہ صرف سے سے بڑا بلکہ سب سے پرانا تعلیمی ادارہ بھی ہے، جہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مجموعی تعداد 17 ہزار کے قریب بنتی ہے۔ اس یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے افتتاح کے موقع پر کیا جانے والا حملہ اس ادارے کے مشرقی حصے میں کیا گیا، جہاں قانون اور صحافت کے تعلیمی شعبے واقع ہیں۔
جس وقت یہ خونریز حملہ کیا گیا، اس وقت بک فیئر کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے وہاں کئی اہم شخصیات پہنچ چکی تھیں۔
افتتاح ایرانی سفیر کو کرنا تھا
ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی اِسنا کے مطابق اس میلے کی افتتاحی تقریب میں کابل میں ایرانی سفیر بہادر امینیان اور ایرانی سفارت خانے کے کلچرل اتاشی کو بھی شرکت کرنا تھی اور میلے کا تو افتتاح بھی ایرانی سفیر ہی کو کرنا تھا۔
افغانستان سے فوجی انخلاء کے لیے امریکا کی اب ایک نئی شرط
اس بک فیئر میں 40 ایرانی پبلشرز کی شائع کردہ کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے اپنی نشریات میں یہ تو بتایا کہ کابل یونیورسٹی میں ایک خونریز حملہ ہوا ہے، تاہم اس میلے میں جن ایرانی سفارت کاروں اور سرکردہ شخصیات کو شرکت کرنا تھی، ان کے بارے میں تہران میں سرکاری میڈیا نے کچھ نہ کہا۔
م م / ا ا (اے پی، اے ایف پی)