1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کابل میں ایک اور ویمن مارچ، صحافیوں پر طالبان کا تشدد

21 اکتوبر 2021

کابل میں خواتین کے مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو طالبان کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ افغان خواتین اپنے حقوق کے لیے ایک مظاہرے میں جمعرات اکیس اکتوبر کو کابل کی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر نکلی۔

https://p.dw.com/p/41xzA
Afghanistan Frauen Protest gegen die Taliban
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP/Getty Images

اطلاعات کے مطابق رنگ برنگے اسکارف پہنے ہوئے قریب بیس خواتین کابل میں وزارتِ تعلیم کی عمارت کے قریب سے احتجاج کرتے ہوئے وزارتِ خزانہ کی بلڈنگ تک چلتے ہوئے گئیں۔

’افغان لڑکیوں کو جبری شادی کے لیے پاکستانی نوجوانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے‘

انہوں نے مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر خواتین کےحقوق سے متعلق نعرے لکھے ہوئے تھے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق طالبان نے خواتین کو احتجاجی مارچ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رکھنے کی کھلی آزادی دے رکھی تھی۔

Afghanistan Kabul | Protest von Frauen, Auflösung durch Taliban
کوریج کرنے والے ایک صحافی کو طالبان انتظامیہ کا اہلکار دھکیل کر دور لے جاتے ہوئے، فائل فوٹوتصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images

پلے کارڈز پر نعرے

احتجاجی مظاہرے میں شریک خواتین نے جو پلے کارڈز  اٹھا رکھے تھے، ان پر 'خواتین کو پڑھنے اور نوکری کا حق دستیاب نہیں‘ اور 'تعلیم پر سیاست مت کریں‘ جیسے نعرے درج تھے۔ ایک پلے کارڈ پر 'بیروزگاری، غربت، بھوک‘ کے الفاظ بھی لکھے ہوئے تھے۔ وہ مظاہرے کے دوران اپنے بازو بلند کر کے نعرے بازی بھی کرتی رہیں۔

افغانستان میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی روپوشی پر مجبور

اس ویمن مارچ میں بچے بھی ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ بچے احتجاجی مارچ کا حصہ تھے یا ویسے ہی ساتھ تھے۔

Afghanistan |  Demonstration für Frauenrechte in Kabul
کابل میں افغان خواتین اپنے حقوق کے لیے کئی مرتبہ چھوٹے بڑے مظاہروں میں شریک ہو چکی ہیںتصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

طالبان کسی کا احترام نہیں کرتے

اس مظاہرے کی منتظمین میں سے ایک زاہرہ محمدی کا کہنا ہے کہ خطرات کے باوجود افغان خواتین احتجاجی مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب حالات یہ ہیں کہ طالبان کے نزدیک کسی کی کوئی وقعت نہیں خواہ وہ کوئی عورت ہو یا صحافی، یہ ملکی ہوں یا غیر ملکی۔

زاہرہ محمدی نے یہ بھی کہا کہ بچیوں کے تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اسکولوں کو کھولنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کی خواتین کے نام پیغام دیتے ہوئے کہا کہ انہیں طالبان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور گھر سے باہر نکلنے پر خاندان والے روکیں تو اس سے بھی خوفزدہ نہیں ہونا کیونکہ حق حاصل کرنے کے لیے جد و جہد تو کرنی پڑے گی۔

Afghanistan Frauen Protest gegen die Taliban
کابل میں خواتین کے ایک سابقہ مظاہرے میں شریک ایک خاتونتصویر: Hoshang Hashimi/AFP/Getty Images

صحافیوں پر تشدد

کابل میں ویمن مارچ کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو طالبان انتظامیہ کے کارندوں کی جانب سے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ کم از کم دو صحافیوں کو چوٹٰیں بھی آئیں۔ ان میں سے ایک کو خودکار رائفل کا پچھلا حصہ مارا گیا جب کہ دوسرے کو طالبان کے مسلح ورکرز نے ٹھوکریں اور مکے بھی مارے۔

طالبان: پابندیوں کے خلاف افغان خواتین کا مظاہرہ

نیوز ایجنسیوں کے مطابق خواتین کے مارچ کے ساتھ طالبان کے باوردی کارکن انہیں اپنی نگرانی میں رکھے ہوئے تھے۔ کئی طالبان مقامی افغان مردوں نے جنگی طرز کے لباس پہنے ہوئے تھے۔

افغان خواتین کس طرح طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں

طالبان اہلکار امریکی ساختہ ایم سولہ اور اے کے 47 کی رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ ابھی تک طالبان نے لڑکیوں کے اسکول کھولنے اور خواتین کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے بارے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے۔

ع ح ب ج (اے ایف پی)