کابل میں خود کش بمباروں کا حملہ، کل 12 افراد ہلاک
18 جون 2011کابل سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ مسلح کارروائی تین طالبان حملہ آوروں نے کی۔ ان میں سے ایک نے خود کو اس پولیس کمپاؤنڈ کے دروازے پر دھماکے سے اڑا دیا تاکہ اس کے ساتھی اس کمپاؤنڈ میں داخل ہوسکیں۔
صدیق صدیقی نامی ترجمان کے بقول ایک حملہ آور کو وہاں موجود پولیس اہلکاروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پھر آخری حملہ آور کے ساتھ وہاں موجود سکیورٹی دستوں کا فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق بعد میں اس آخری خود کش حملہ آور نے بھی خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق اس حملے میں عمارت کے باہر زخمی ہو جانے والے ایک پولیس اہلکار کو اس کے ساتھیوں نے فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا۔ کمپاؤنڈ کے باہر موجود بھاری ہتھیاروں سے مسلح کئی پولیس اہلکار اس عمارت کی طرف فائرنگ کرتے دیکھے گئے۔
عبدالواحد نامی ایک عینی شاہد نے خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس حملے کے دوران تین دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں تاہم کافی دیر تک صورت حال بہت غیر واضح تھی۔ اس حملے اور اس کے بعد شروع ہونے والے فائرنگ کے تبادلے کے دوران پولیس کمپاؤنڈ کے ارد گرد کی سڑکیں بالکل سنسان ہو گئیں۔ عام طور پر وہاں خریداروں اور سٹالوں پر مختلف چیزیں بیچنے والوں کا بڑا ہجوم رہتا ہے۔
کابل سے ملنے والی خبر ایجنسی روئٹرز کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق آج کے حملے میں مجموعی طور پر بارہ افراد ہلاک ہوئے۔ وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ ان میں سے تین خود کش حملہ آور تھے، تین پولیس اہلکار، ایک ملکی خفیہ ادارے کا ایجنٹ اور کم از کم پانچ عام شہری۔ اس کے علاوہ دو پولیس اہلکار اور دس شہری زخمی بھی ہو گئے۔
آج کا حملہ کابل میں حالیہ ہفتوں کے دوران کیا جانے والا دوسرا خود کش حملہ ہے۔ اکیس مئی کو کابل کے بہت سخت حفاظتی انتظامات والے ایک علاقے میں ایک فوجی ہسپتال پر کیے جانے والے ایک خود کش حملے میں چھ افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو گئے تھے۔
افغانستان میں آج کل ملکی فوج اور نیشنل پولیس کے علاوہ قریب ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود باغیوں کے مسلح حملوں کی وجہ سے سلامتی کی صورت حال اتنی خراب ہے، جتنی پچھلے دس سال میں نہیں تھی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ سن 2001 میں امریکہ کی فوجی حمایت سے افغان قوتوں کے ہاتھوں ہوا تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امجد علی