کابل کے پُر رونق بیوٹی پارلر یا خواتین کے لیے پناہ گاہیں
5 مئی 2017سن 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغان دارالحکومت میں آرائش و زیبائش کے چھوٹے چھوٹے مراکز قائم ہو گئے تھے۔ یہ نظارے طالبان دور میں نظر آنے والے خوفناک مناظر سے بالکل مختلف ہیں۔ کابل شہر کی کئی سڑکوں پر بے شمار بیوٹی پارلرز قائم ہیں۔ قدامت پسند افغان معاشرے میں ان آرائش گاہوں کے اندر کوئی مرد نہیں جھانک سکتا ۔
ان بیوٹی پارلروں میں داخل ہوتے ہی خواتین اور نوجوان لرکیوں کے برقعے اور حجاب اتر جاتے ہیں۔ چست لباس میں ملبوس لڑکیاں بال گیلے بال خشک کرنے کے دوران باتوں میں مصروف رہتی ہیں اور مختلف کریموں کی ملی جلی خوشبو سے ارد گرد کا ماحول معطر رہتا ہے۔
ایک بیوٹی پارلر کی مالک اتھینا ہاشمی نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ وہ خاندان جو اپنی بیٹیوں کو یہاں بھیجتے ہیں، انہیں تسلی ہوتی ہے کہ یہ بیوٹی پارلر صرف خواتین کے لیے ہیں۔‘‘ اس 32 سالہ، لمبے کالے گھنے بالوں والی خوبصورت خاتون نے دو برس پہلے دبئی سے تربیت حاصل کرنے کے بعد کابل میں بیوٹی پارلر کھولا تھا۔
اب ہاشمی کے اپنے بیوٹی پارلر میں سترہ لڑکیاں ملازمت کر رہی ہیں جو اس پارلر کی خواتین گاہکوں کو مختلف سہولیات فراہم کرتی ہیں۔
اس پارلر کی ایک خاتون گاہک مزہدا کا کہنا ہے کہ یہ شہر کا سب سے بہترین بیوٹی پارلر ہے۔ اس پارلر میں کابل شہر کی امیر ترین خواتین آتی ہیں۔ اتھینا ہاشمی کے پارلر میں دلہن کا میک اپ 136 ڈالر میں کیا جاتا ہے جو کابل کے حساب سے کافی مہنگا ہے۔ آج مزہدا کی بہن کی شادی ہے۔ اُس کے خاندان کی کئی خواتین آج یہاں سے مہندی لگوائیں گی اور مکمل میک اپ کروائیں گی۔
ہَما نامی ایک ڈاکٹر اپنی ایک رشتہ دار کی شادی پر جانے کے لیے اپنی بیٹی کے ہمراہ اس پارلر آئی ہیں۔ میک اپ کرنے کے بعد اس کی سولہ سالہ بیٹی اب تیس سال کی دکھائی دے رہی ہے لیکن ہَما کو اس کی چنداں فکر نہیں۔ ہما کے مطابق شادی کا ہی موقع ہوتا ہے جب لڑکیاں تیار ہوتی ہیں۔ شدت پسندوں کے حملوں اور طالبان کی جانب سے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کے خوف کے باعث اب ہَما کا خاندان ریستورانوں میں جانا محفوظ تصور نہیں کرتا۔
کچھ برس قبل ریما کوہلی نامی ایک محققہ نے اس موضوع پر ریسرچ کی تھی کہ لگ بھگ چار دہائیوں کی جنگ کے بعد افغان خواتین آزادی سے میک اپ استعمال کرنے پر کیسا محسوس کرتی ہیں۔ ریما کا کہنا ہے،’’افغان عورتوں کو جنگ نے ذہنی اور جذباتی طور پر بری طرح متاثر کیا ہے۔‘‘
اتھینا کی رائے میں کئی برس گزرنے کے باوجود طالبان اُن کے لیے آج بھی خطرہ ہیں اس لیے ضروری ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے۔