نیو یارک میں وزیر اعظم کی شاہ خرچیاں تنقید کی زد میں
24 ستمبر 2022معروف صحافی متین حیدر نے روف کلاسرا اور عامر متین کے ایک پروگرام میں انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے سلسلے میں نیو یارک کے ایک مہنگے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، جس میں ایک کمرے کا کرایہ پانچ ہزار ڈالر جب کہ سوئیٹ کا کرایہ نو ہزار ڈالر ہے۔
اس کے برعکس سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے دورہ نیو یارک کے دوران پاکستانی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔
کچھ ناقدین وزیر اعظم شہباز شریف پر اس حوالے سے بھی تنقید کر رہے ہیں کہ وہ بہت بڑا وفد لے کر نیو یارک پہنچے، جس پر سرکاری خزانے سے پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔
کاروں کی خبر اور وزیر اعظم کے دورے کی مبینہ شاہ خرچیوں نے تنقید کا ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔
پاکستانی وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب: کشمیر اور سیلاب موضوع
حکومت کا مستقبل: حالات کس رخ پر جارہے ہیں
سیلابی بحران: کیا عالمی برادری پاکستان کے نقصان کی تلافی کرے گی؟
کئی حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر کڑی تنقید ہو رہی ہے، جس میں اس نے کاروں کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی ہے۔
انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک خبر کے مطابق وفاقی کابینہ نے تھری اسٹار اور فور اسٹار ریٹائرڈ جرنیلوں کو یہ اجازت دی ہے کہ وہ چھ ہزار سی سی کی کاریں ڈیوٹی فری برآمد کر لیں۔ ان کاروں پر ٹیکسز بھی لاگو نہیں ہوں گے۔
سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس معاملے کی وضاحت کے لیے فی الحال نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا اور اس کے لیے وزیر اعظم کی اجازت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مزید براں ایف بی آر نے ایک ٹویٹ میں اس خبر کی تردید بھی کی ہے۔ تاہم سوشل میڈیا پر وزارت خزانہ کا ایک نوٹیفیکیشن شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں گاڑیوں کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دی گئی ہے۔ حکومتی ترجمان کی طرف سے اس خبر کی اب تک کوئی تردید نہیں آئی ہے۔
تینوں سروسز چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ریٹائرمنٹ کے فورا بعد اس طرح کی کاریں درآمد کر سکیں گے۔ تھری اسٹار جنرل ایک ایک ایسی کار در آمد کر سکیں جبکہ فور اسٹار جنرل اس طرح کی دو دو گاڑیاں درآمد کر سکیں گے۔
اخبار کے مطابق انہیں پانچ برس تک مارکیٹ میں بیچا نہیں جا سکے گا۔ اگر ان کو اس مدت سے پہلے بیچا گیا، تو تمام ڈیوٹی اور ٹیکسز بیچنے والے کو ادا کرنے پڑیں گے۔
تنقید کا طوفان
اس خبر کے نشر ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سیاست دانوں سے لے کر صحافیوں تک سب نے اس حکومتی فیصلے کو ہدف تنقید بنایا۔ معروف صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ اس انقلابی اقدام کی منظوری کابینہ نے دی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے سابق ترجمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''میں اپنے ریٹائرڈ جرنیلوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں، آنکھیں بند کریں اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا یہ مراعات جائز ہیں؟ اگر آپ کے دل سے آواز آئے کہ یہ جائز ہیں، تو پھر دو کی جگہ بیس کاریں درآمد کر لیں۔‘‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے لکھا، ''صاحبانِ اختيار اس خبر کی تصديق يا ترديد کريں کہ فوج سے ريٹائر ہونے والے جنرل صاحبان کو 6000 cc کی دو گاڑياں ڈيوٹی/ٹيکس فری منگوانے کی اجازت ہو گی۔ پاکستان تو اس عياشی کا مُتحمل نہيں ہو سکتا۔ جنرل صاحبان کی خوشنودی کی خاطر ايسا فيصلہ رشوت، غريب عوام پر ظُلم اور فوج کی بدنامی ہے۔‘‘
شرمناک فیصلہ
کئی ناقدین اس فیصلے کو شرمناک قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، حاکم طبقات عوام کے پیسے اس طرح اڑا رہے ہیں۔ ایف بی آر سے وابستہ سابق عہدیدار ڈاکٹر اکرام الحق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح کی کاروں میں ڈیوٹی ڈھائی سو فیصد ہوتی ہے جبکہ ڈیوٹی کا تقریبا پینتیس فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس کی شکل میں دینا ہوتا ہے۔ جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔‘‘
اکرام الحق کے مطابق کرڑوں عوام سیلابوں کی وجہ سے فاقہ کشی کا شکار ہیں اور ایسے میں وزیر اعظم کے دورے میں شامل افراد کی شاہ خرچیاں اور ٹیکس فری کار کی امپورٹ کا فیصلہ انتہائی شرمناک ہے۔
اس فیصلے اور وزیر اعظم کے مہنگے دورہ نیو یارک پر تنقید صرف کچھ حلقوں کی طرف سے ہی نہیں ہو رہی بلکہ حکومتی اتحاد میں شامل کچھ جماعتیں بھی اس پر تنقید کر رہی ہیں۔ جے یو آئی ایف کی مرکزی شوری کے رکن محمد جلال الدین ایڈوکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''ہم اس امپورٹ کے شدید مخالف ہیں۔ ہمارے خیال میں جرنیلوں، ججوں اور وزرا کو اس طرح کی رعایت بالکل نہیں ملنی چاہیے۔ ہم اس رعایت کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کے مطابق اگر وزیر اعظم نے بھی اپنے دورے کے دوران مہنگے ہوٹل میں قیام کیا ہے تو یہ بالکل غلط ہے۔ ''ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایسے میں وزیر اعظم یا وزرا کو سادگی اپنانی چاہیے۔ امریکی عہدیدار آ کر اپنے سفارتخانوں مین قیام کرتے ہیں، تو ہم اور ہمارے حکمراں ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘