1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
لائف اسٹائلشمالی امریکہ

کام کے طویل اوقات ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں، عالمی ادارہ صحت

17 مئی 2021

کام کے طویل اوقات سے سالانہ بنیادوں پر ہزاروں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بات عالمی ادارہ صحت نے پیر سترہ مئی کو اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتائی ہے۔

https://p.dw.com/p/3tVGA
Symbolbild WHO Studie Lange Arbeitswoche erhöht das Risiko tödlicher Erkrankungen
تصویر: Robin Utrecht/picture alliance

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ رپورٹ ایک اہم جریدے انوائرمینٹل انٹرنیشنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کام کے طویل اوقات سے انسانی صحت کو پہنچنے والے نقصانات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا کہ طویل اوقات کے انسانی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات اتنے شدید ہو سکتے ہیں کہ ان سے متاثرہ انسان اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتا ہے۔

دنیا کا بھیانک سچ اور ننھے مزدور

کام کے طویل اوقات اور انسانی اموات

عالمی ادارہٴ صحت کے مطابق اقتصادی عدم اطمینان کی وجہ سے کئی انسانوں کو طویل اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے اور یہ صورت حال کورونا وبا کے ایام میں خاص طور پر زیادہ دیکھی گئی ہے۔ ریسرچ رپورٹ کے مطابق کام زیادہ کرنے کے اوقات کی وجہ سے انسانوں کو مختلف عوارض کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں عارضہٴ قلب خاص طور پر اہم ہے۔ سن 2016 میں کام کے طویل اوقات کی وجہ سے دنیا بھر میں سات لاکھ پینتالیس ہزار افراد اپنی زندگی سے محروم ہو گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک اور اسٹروک ہے۔ یہ اضافہ سن 2000 کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ ہے۔

Symbolbild Laptop Frau Home Office Erschöpfung Stress Zoom Meeting Fatigue
طویل اوقات تک کام کرنے سے انسانی صحت کو کئی مسائل کا سامنا ہو جاتا ہےتصویر: ROBIN UTRECHT/picture alliance

عالمی ادارہٴ صحت کا ردعمل

ریسرچ میں واضح کیا گیا ہے کہ عالمی آبادی میں کام کے زیادہ اوقات کا سامنا کرنے والی آبادی نو فیصد ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے شعبہ انوائرنمنٹ اور کلائمیٹ چینج و صحت کی ڈائریکٹر ماریا نائرا کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں پچپن گھنٹے کام کرنے سے صحت کے شدید مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے لیے عام لوگوں تک بنیادی معلومات پہچانا اور ورکرز کی صحت کا تحفظ بھی بہت ضروری ہے۔

بھارت: ایک ماہ میں 75 لاکھ افراد روزگار سے محروم

کام اور گھر کے درمیان لکیر

عالمی ادارہٴ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آڈہانوم گیبرائسس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لوگوں کے کام کی ہیت میں بڑی تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور کئی اداروں میں کمپیوٹر یا ٹیلی ورکنگ نے معمول کی صورت اختیار کر لی ہے۔ گبرائسس کے مطابق اس نئی صورت حال نے کام کے مقام اور گھر میں فرق مٹا دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کو اپنے ورکرز کی صحت کو مقدم سمجھنا چاہیے جب کہ ورکرز کو اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ زندگی کے سامنے روزگار کی کوئی اہمیت نہیں اور بہتر ہے کہ کام اس طرح کیا جائے کہ ہارٹ اٹیک یا اسٹروک سے محفوظ رہا جائے۔

Vietnam
بنگلہ دیش میں کپڑے بنانے کی انڈسٹریز کے ورکرز کو طویل اوقات تک کام کرنے کا سامنا رہتا ہےتصویر: Oxfam/S. Tarling

عالمی ادارہٴ صحت اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ سن 2016 میں تین لاکھ اٹھانوے ہزار افراد کی موت کی وجہ اسٹروک اور تین لاکھ سینتالیس ہزار افراد کو دل سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں جانا پڑا۔

 کام کے لیے پولینڈ سے میکسیکو، وہاں جسمانی اعضاء نکال لیے گئے

عالمی ادارہٴ صحت کا کہنا ہے کہ کورونا وبا نے انسانی زندگی میں کام کے اوقات کو بڑھا دیا ہے۔ کام کے اوقات زیادہ ہونے سے جو سات لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں، ان میں زیادہ افراد مرد تھے، جو اوسط یا بڑی عمر کے تھے۔

ع ح، ا ا (روئٹرز، ڈی پی اے)