کانگریس کا ہاتھ بائیں بازو پر بھاری
22 جولائی 2008پارلیمان کے ایوان زیریں، لوک سبھا میں دو روزہ خصوصی اجلاس میں بحث کے اختتام پر ووٹنگ ہوئی۔ حکومت کے حق میں 275جبکہ مخالفت میں 256 ووٹ پڑے۔ ووٹنگ کا یہ نتیجہ بائیں بازو پر مشتمل جماعتوں کے اتحاد کے لئے ایک دھچکہ ہے۔
پارلیمان میں ووٹنگ سے قبل لوک سبھا میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔ اپوزیشن نے متحدہ ترقی پسند کے حکمران اتحاد پر یہ الزام عائد کیا کہ اس نے پارلیمان کے بعض اراکین کو ووٹنگ سے غیر حاضر رہنے کے لئے کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں۔ لیکن حکمران کانگریس نے اس الزام کو مسترد کردیا۔
اعتماد کی تحریک سے قبل، بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں، یعنی لوک سبھا میں سیاستدانوں کی طرف سے ہارس ٹریڈنگ کے الزامات اور جوابی الزامات کی وجہ سے زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی۔
لوک سبھا میں اس وقت حیران کن منظر دیکھنے کو ملا جب نوٹوں سے بھرا ہوا ایک تھیلا ایوان میں پیش کیا گیا اور حزب اختلاف کے چند اراکین نے الزام لگایا کہ حکمران جماعتوں نے روپے کے بل پر بعض اراکین کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس منظر کے بعد سپیکر نے پارلیمان کی کارروائی معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحریک اعتماد آخر کیوں؟
دراصل پورے تنازعے کی وجہ بھارت۔ امریکہ غیر فوجی ایٹمی معاہدہ ہے۔ بھارت میں اس مجوزہ جوہری معاہدے پر سیاسی اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد نے متحدہ ترقی پسند حکومت، یو پی اے‘ سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ لیکن اس کے باوجود حکومت نے پارلیمان میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔
کانگریس کی سربراہی والا حکمران اتحاد بھارت۔ امریکہ سویلین نیوکلیئر ڈیل کی یہ کہہ کرحمایت کرتا ہے کہ یہ قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ جبکہ اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی اور بائیں بازو کے محاذ کا موقف ہے کہ اس ڈیل سے اس شعبے میں بھارت امریکہ کا محتاج بن کر رہ جائے گا۔ بی جے پی کے صدر لال کرشن اڈوانی کہتے ہیں: ’میرے خیال میں اس معاہدے کے نتیجے میں امریکہ پر ہمارا انحصار بہت زیادہ ہوجائے گا۔‘
بھارت۔ امریکہ غیر فوجی جوہری معاہدے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ڈیل ہوجاتی ہے تو نہ صرف بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا بلکہ اس کے جوہری پروگرام کو بھی خطرہ لاحق ہوگا۔ بہوجن سماج پارٹی‘ بی ایس پی سے تعلق رکھنے والے معروف بھارتی سیاستدان شاہد صدیقی کہتے ہیں: ’یہ جوہری معاہدہ بھارت کے لئے سیاسی اعتبار سے بہت مہنگا ہے۔ اس ڈیل کے ہونے سے بھارت کی خارجہ پالیسی کو امریکہ کا محتاج ہونا پڑے گا۔‘
لیکن شاہد صدیقی کے ساتھ ساتھ دیگر ناقدین کے ایسے خدشات کا جواب کانگریس کی چیئرپرسن سونیا گاندھی ان الفاظ میں دیتی ہیں: ’یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم قومی سلامتی، قومی مفاد، اپنے جوہری پروگرام، اور اپنی خارجہ پالیسی کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ کریں۔‘