کانگو میں روانڈا کی ہوٹو ملیشیا کی پرتشدد کارروائیاں
25 فروری 2010اس مليشيا کے سربراہ اور اس کے نائب نے برسوں تک آزادی کے ساتھ جرمنی ميں قيام کيا، ليکن پچھلے سال اُنہيں گرفتار کرليا گيا۔
کانگو کے جنگلات سے گھرے اور معدنی ذخائر سے مالامال صوبے کيوو ميں ’ايف ڈی ايل آر‘ کی ہوٹو مليشيا کئی برسوں سے عوام کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔ کانگو کے ريسرچ اور تعليمی ترقی کے انسٹيٹيوٹ پول نے اس گوريلا تنظيم کے بارے ميں ايک مطالعہ برلن ميں پيش کيا ہے۔ اس مطالعے کو مرتب کرنے ميں جرمن خاتون صحافی آندرياس بوم نے بھی حصہ ليا ہے۔ اُنہوں نے پہلی مرتبہ سن 2002 ء ميں کانگو پر رپورٹنگ کی تھی۔ وہ تسليم کرتی ہيں کہ اُس وقت وہ کانگو کے بارے ميں بہت کم جانتی تھيں۔ اُنہوں نے کہا: کانگو کی تاريخ پڑھنے سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ يہ ملک لوٹ مار کی سرمايہ داری کی پہلی مثالوں ميں سے ايک ہے۔ کانگو کےعوام سے جبراً بھی کام ليا گيا تھا۔ ليکن کانگو ہی ميں، اس نو آبادی کو اپنی ذاتی ملکيت بنا لينے والے بيلجيم کے بادشاہ ليو پولڈ دوم کے خلاف انسانی حقوق کی لڑائی بھی لڑی گئی تھی۔
کانگو،عالمی فوجداری قانون کے استعمال کے سلسلے ميں بھی نماياں مثال بن سکتا ہے جسے جرمنی ميں سن 2002 ء ميں منظور کيا گيا تھا کيونکہ پچھلے سال نومبر سے مشرقی کانگو ميں جنگ کے دو کرتا دھرتا جرمنی کی جيل ميں بند ہيں۔ ہوٹو ايف ڈی ايل آر مليشيا کے سربراہ مُروا ناشياکا اور ان کے نائب موسونی کی گرفتاری سے ہوٹو مليشيا کمزور ہو گئی ہے۔ کانگو کے انسٹيٹيوٹ پول کے ڈائرکٹر ٹيگيرا نے کہا:ہم کانگو والوں کو خوشی ہے کہ جرمنی نے ان ايف ڈی ايل آر رہنماؤں کو گرفتار کر ليا ہے۔ ہميں اميد ہے کہ اُن کے خلاف اچھی طرح سے تحقيقات کی جائیں گی اور عدالت ميں پيش ہونے کے بعد جرم ثابت ہونے کی صورت ميں اُنہيں سزا بھی دی جائے گی۔
ٹيگيرا نے اميد ظاہر کی دوسرے يورپی ملک بھی جرمنی کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپنے ملکوں ميں مقيم کانگو کی جنگ کے ذمہ داروں کو عدالت ميں لائيں گے۔
ايف ڈی ايل آر اُس ہوٹو مليشيا کی جانشين تنظيم ہے جس نے سن 1994ء ميں روانڈا ميں آٹھ لاکھ تتسيوں کو قتل کيا تھا۔ اس قتل عام کے بعد ہوتو مليشيا فرار ہو کر سرحد پار کانگو آگئی تھی جہاں وہ شہری آبادی کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ٹيگيرا نے کہا کہ اس مليشيا نے کانگو ميں ايک متوازی حکومت بنا لی ہےاوراس علاقے کو بيرونی دنيا سے الگ کرديا ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عاطف بلوچ