کتابوں تک نابیناؤں کی رسائی، تاریخی سمجھوتہ
1 جولائی 2013لیجنڈ نابینا امریکی گلوکار سٹیوی ونڈر بھی اس موقع پر مراکش میں موجود تھے اور انہوں نے اس سمجھوتے کو، جو کہ کئی برسوں کے مذاکرات اور جملہ حقوق رکھنے والوں کی جانب سے مزاحمت کے بعد سامنے آیا ہے، ایک ’نیا آغاز‘ قرار دیا۔
نابیناؤں کی عالمی تنظیم ’ورلڈ بلائنڈ یونین‘ کے مطابق اب تک کاپی رائٹ کے قانون کی وجہ سے حالات یہ ہیں کہ ہر سال دنیا بھر میں شائع ہونے والی کتابوں کی محض پانچ فیصد تعداد ایسی شکل و صورت میں سامنےآتی ہے کہ جس سے نابینا یا کم بصارت والے افراد استفادہ کر سکتے ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد 314 ملین ہے، جن کی بینائی متاثر ہے۔ ان میں سے بھی 90 فیصد ترقی پذیر ممالک میں بستے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مراکش میں یہ سمجھوتہ ورلڈ انٹلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (WIPO) کے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔ اس تنظیم کے 186 رکن ممالک سے گئے ہوئے کوئی 800 مندوبین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ نابیناؤں کے لیے کاپی رائٹ کی رکاوٹوں کو محدود اور نرم بنا دیا جائے۔ اس سمجھوتے کے نتیجے میں شائع شدہ کتابوں کو زیادہ سہولت کے ساتھ بریل طرزِ تحریر میں، آڈیو بُکس کی صورت میں یا پھر بڑے سائز میں شائع کیا جا سکے گا۔
اس سمجھوتے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ورلڈ بلائنڈ یونین کی صدر میرین ڈائمنڈ نے کہا کہ ’اِس کانفرنس میں یہ ہم سب کے لیے ایک تاریخی اور پُر جوش دن ہے، یہ بڑی طویل جنگ تھی‘۔ انہوں نے کہا، یہ بات بہت اہم ہے کہ اب لوگ کسی ایک ملک میں خاص طرزِ تحریر میں شائع ہونے والی کتابیں کسی دوسرے ملک میں موجود لوگوں کے ساتھ شیئر بھی کر سکیں گے‘۔ اُن کا کہنا تھا:’’اب ضرورت اس بات کی ہے کہ رکن ممالک اس سمجھوتے کی توثیق کریں۔ جب تک توثیق نہیں ہو گی، اس سمجھوتے سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔‘‘
اس اجتماع میں ساری بحث کا مرکز 1886ء کا ادبی اور فنی شاہکاروں کے تحفظ کا بیرن کنونشن تھا، جس کے مطابق کاپی رائٹ والی کتابوں کے استعمال کے لیے مصنف کی اجازت لینا اور اُسے رائلٹی ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہ کنونشن ان کتابوں کو ایک سے دوسرے ملک بھجوانے کے راستے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ تاہم اب جیسا کہ WIPO کے ڈائریکٹر جنرل فرانسس گری نے کہا، ’سینیگال یا مراکش کا کوئی نابینا شخص مثلاً فرانس میں کسی ایسوسی ایشن سے براہِ راست کتابیں وغیرہ بھجوانے کی درخواست کر سکے گا‘۔
اسپین کے نابینا افراد کی قومی تنظیم سے وابستہ باربرا مارٹن نے ہسپانوی بولنے والی کمیونٹی کے لیے اس سمجھوتے کے بے پایاں اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اب اسپین اور ارجنٹائن میں نابیناؤں کے لیے موجود ڈیڑھ لاکھ کتابوں کو دنیا کے دیگر خطّوں میں موجود ہسپانوی کمیونٹی کے ساتھ بانٹا جا سکے گا‘۔
براعظم افریقہ میں نابینا افراد کی تعداد مقابلتاً بہت زیادہ ہے اور وہاں بھی اس سمجھوتے کے بہت زیادہ مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ نابیناؤں کی جنوبی افریقی کونسل کے سربراہ جیس نائر نے کہا کہ یہ اُن کے لیے ’ایک بہت جذباتی لمحہ‘ ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس سمجھوتے کے لیے گزشتہ چار سال سے کوششیں ہو رہی تھیں اور چند ایک ممالک خصوصاً امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے شدید مزاحمت کی جا رہی تھی۔