کراچی سانحے کے ملزمان گرفتار کر لیے، پاکستانی وزیر داخلہ
20 مئی 2015چوہدری نثار علی خان نے دارالحکومت اسلام آباد میں بدھ کے روز یہ بات صحافیوں سے بات چیت میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی پولیس اور خفیہ ایجنیسیوں نے مل کر کام کیا اور تیزی سے اس حملے میں ملوث ملزمان تک پہنچے۔ انہوں نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ ان ملزمان کا تعلق کس گروہ سے تھا:’’یہ ایک بلائنڈ مرڈر کیس تھا، تاہم پولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں صرف چار دن کے اندر اندر اس واقعے کی تہہ تک پہنچ گئیں اور اس سلسلے میں پولیس نے قائدانہ کردار ادا کیا۔
یہ بات اہم ہے کہ اس حملے کے بعد دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ 13مئی کو یہ واقعہ کراچی میں صفورا چورنگی پر پیش آیا تھا، جس میں دہشت گردوں نے اسماعیلی شیعہ مسلمانوں کی ایک بس میں چڑھ کر اس میں سوار مسافروں پر فائنرگ کر دی تھی۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان نے اس حملے میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دلخراش اور اندوہناک واقعے نے پورے پاکستان کو سوگوار کر دیا تھا، تاہم اس بات پر اطمینان کیا جا سکتا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکیورٹی ایجنسیاں اس واقعے کے پس منظر، منصوبہ سازوں اور دیگر تفصیلات سے آگاہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے نام ظاہر کیے بغیر کہا کہ اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ بھی حراست میں لیا جا چکا ہے اور وہ گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہا اور ملکی سکیورٹی اداروں کو انتہائی مطلوب تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے حوالے سے شواہد اور گرفتار افراد سے متعلق تفصیلات جلد ظاہر کر دی جائیں گی۔
صحافیوں سے بات چیت میں چوہدری نثار علی خان نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ پر جعلی ڈگریاں جاری کرنے کے الزامات سے متعلق کہا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی ایک سات رکنی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے، جس نے اس کمپنی کے دفاتر سیل کر کے متعدد سرورز اپنے قبضے میں لے لیے ہیں، جن سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کے ٹیکسوں کے حوالے سے بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔ تاہم انہوں نے مقامی میڈیا پر زور دیا کہ اس سلسلے میں افواہوں سے اجتناب کیا جائے اور غلط اور غیر مصدقہ اطلاعات نشر نہ کی جائیں۔