کراچی: مٹی کا ڈھیر بنتا ہوا تعمیراتی ثقافتی ورثہ
پاکستان کے قیام کے بعد حالات اس قدر ابتر تھے کہ افراتفری اور تشدد کے درمیان کسی کا خیال بھی پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں موجود تعمیراتی ثقافتی ورثے کی بحالی یا پھر اس کی مناسب طریقے سے دیکھ بھال کی طرف نہیں گیا۔
آبادی کے لحاظ سے کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے لیکن اس کے تعمیراتی جواہر یا تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں، یا پھر انہیں اس کاروباری شہر میں جگہ جگہ موجود رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز سے شدید خطرہ ہے۔
اختر بلوچ کراچی کے ثقافتی ورثے پر متعدد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 1947ء میں جن عمارتوں کو لوگ چھوڑ کر گئے تھے، ان کی ہر ایک اینٹ ایک کہانی بیان کرتی ہے۔
اختر بلوچ بتاتے ہیں کہ جن تاریخی عمارتوں کی حالت آج انتہائی خستہ نظر آتی ہے اور جن کی دیکھ بھال اب کوئی بھی ضروری نہیں سمجھتا، انہیں انتہائی محبت، پیار اور محنت سے تعمیر کیا گیا تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ان تاریخی عمارات کے زیادہ تر مالک وہ مسلمان اور ہندو تھے جو تقسیم ہند کے وقت تشدد سے بچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ منتقل ہو گئے تھے۔
’سندھ ثقافتی ورثہ تحفظ ایکٹ‘ سن 1994 میں متعارف کروایا گیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ٹوٹ پھوٹ کے شکار ثقافتی تعمیراتی جواہر کی حفاظت کرنا تھا لیکن عدالتیں ان کیسوں میں مصروف ہیں، جہاں ڈویلپرز ان کی حفاظت میں رکاوٹ ہیں۔
ماضی کی یاد دلانے والی ان عمارات کو حکومتی بے توجہی کے ساتھ ساتھ کراچی کی اس آب و ہوا کا بھی سامنا ہے، جس میں سمندری نمک والے آبی بخارات ہوتے ہیں جو خاص طور پر لوے کو زنگ آلود کر دیتے ہیں۔
محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے کراچی کی سترہ سو عمارتوں کو ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ کراچی میں صدر وہ علاقہ ہے، جس کے مضافات میں برطانوی دور کی بہت سے تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔
فریئر ہال اور جهانگیر کوٹهاری پریڈ کا شمار کراچی کی ان چند تاریخی عمارتوں میں ہوتا ہے، جن کی ماضی کی شان و شوکت کو بحال کیا گیا ہے۔ لیکن اس شہر کی زیادہ تر خستہ حال تاریخی عمارتیں اب بھی اپنے مسیحا کے انتظار میں ہیں۔